آہ !! کہ
اپنے جوہر کے بھی تم رکھوالی نہیں
📝 حافظہ خنساء اکرم
کلاس کی پرسکون فضا میں گونجتی سورۃ مریم کی
آیات مبارکہ کی تلاوت ہیبت و جلالت
کی نجانے کتنی کیفیات سے دوچار کر رہی تھی۔۔۔!!
یوں گماں ہوتا تھا کہ صحبت
میں بیٹھے نفوس کو دیکھنے کی صلاحیت بھی کھوجائے گی ۔۔۔
تخیل کا پرندہ فرصت
پاتے ہی ماضی کے روزن میں جھانکنے کو بے تاب تھا کہ اپنے نام کے پکارے جانے کے احساس
نے حال میں واپسی کا سندیسہ دیا ۔
جی تلاوت مکمل ہو چکی
تھی اور اب سوال و جواب کی نشست جاری تھی مگر ذہن ان تمام اسرار کو کھوجنے کے
لیے بے تاب تھا جس نے اللہ عزوجل کو اس قدر غضب ناک کردیا تھا۔۔۔۔۔!
وہ آیات کچھ یوں تھیں:
قال تعالى( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا
(88) لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا (89) تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ
وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (90) أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ
وَلَدًا (91) وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا (92) إِنْ كُلُّ
مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا (93) لَقَدْ أَحْصَاهُمْ
وَعَدَّهُمْ عَدًّا (94) وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا (95)۔
"ان
کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے۔ یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو ۔ قریب
ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں
۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔
شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ۔ آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سب
کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں ۔ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو
پوری طرح گن بھی رکھا ہے ۔ یہ سارے کے سارے
قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں ۔"
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ان کے عقائد ونظریات میں ایسی کیا
چیز ہے کہ جو ہرگز بھی اللہ رب العالمین کی شایانِ شان نہیں ہے۔
حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی تخلیق اللہ رب العزت
کی قدرت کے مظاہروں میں سے ایک بڑا مظہر ہے اور اللہ عزوجل نے ان کو ( عیسیٰ علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم علیہا
السلام کو جہان والوں پر نمایاں برتری عطا فرمائی۔یہ عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جو زندہ
آسمان پر اٹھا لیے گئے اور قرب قیامت باذن اللہ دوبارہ نزول فرمائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ عیسی علیہ السلام کے صاحبِ
شریعت ہونے کے بعد ان کے اُمّتی نصاریٰ کہلائے۔
اور یہ پیروکار
اس وقت کے صحیح العقیدہ مسلمان ہی تھے
سو ان کی اپنے نبی کی طرف نسبت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے تک
تو درست تھی مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نصاری کا مسیح علیہ السلام
کی طرف انتساب درست نہیں۔ اس لئے آج کے عیسائی،
مسیحی برادری اپنے اس دعوٰی میں بالکل غلط ہیں کہ ان کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کے ساتھ ہے کیونکہ ہر دور ہر بستی میں آنے
والے نبی نے اپنی قوم کو سب سے پہلے عقیدہ توحید کی دعوت دی ۔ رب ذوالجلال کی وحدانیت
پر یقین ہر دور کے سعادت مندوں کا شعار رہا ہے ۔ عقیدہ توحید ہر دور میں خوش نصیبوں
کا طرّہ امتیاز رہا ہے ۔عظمت توحید کا اعتراف ہر دور میں محور نجات رہا ہے اور ہر دور
میں حق پرست یہی پیغام دیتے آئے ہیں کہ صرف اللہ ہی واجب الوجود ہے اور وہی مستحق عبادت
ہے ۔ پہلی امتوں میں بھی یہی نور اعتقاد تھا اور اس امت میں بھی صفہ سے لیکر آج تک
یہی معیار الوہیت مانا گیا ۔
اور قرآن کریم میں بارہا اس عقیدے کی تصحیح میں آیات ہماری
نگاہوں سے گزرتی ہیں جس میں شرک اور توحید کی تمام گرہوں کو کھول دیا گیا ہے ۔
آج کے عیسائی نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت
سے انکاری ہیں بلکہ اللہ کریم کی وحدانیت کو بھی تسلیم نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ اللہ
نے دنیا و آخرت میں ذلت ان کا مقدر کردی۔
ان کا جرم معمولی نہیں ہے
بلکہ یہ لوگ نعوذ باللہ اللہ رحمان کے ساتھ شرک کرتے ہوئے عیسی علیہ السلام کو اللہ
کا بیٹا قرار دیتے ہیں ۔جو کہ نہ صرف قرآنی فرمان بلکہ عقل کے بھی خلاف بات
ہے۔
اور اس کی دلیل ان کے مذہب میں موجود دو گروہوں کی صورت
میں بھی موجود ہے۔
یسوع (جنہیں عیسیٰ بھی کہا جاتا ہے اور دوسری زبانوں میں:
عبرانی: יֵשׁוּעַ؛
سریانی: ܝܫܘܥ) مسلمانوں
اور مسیحیوں دونوں کے نزدیک نہایت مقدس ہستی ہیں۔ مسلمان ان کو اللہ کا برگزیدہ نبی
مانتے ہیں اور عیسیٰ کے نام سے پکارتے ہیں۔ مسیحیت میں دو طرح کے گروہ ہیں۔ ایک جو
ان کو خدا کا نبی مانتے ہیں اور دوسرا جو ان کو تثلیث کا ایک کردار مانتے ہیں اور خدا
کا درجہ دیتے ہیں۔ بعض یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہیں مگر مسلمانوں اور
کچھ مسیحیوں کے مطابق اللہ یا خدا ایک ہے اور اس کی کوئی اولاد یا شریک نہیں۔
یہی مسیحی برادری ( خدا کا بیٹا کہنے والی) 25 دسمبر کو
ان کا یوم پیدائش مناتی ہے ۔
اور یہ تاریخ بھی
عید میلاد النبی کی طرح کسی ٹھوس دلیل پر موجود نہیں ۔
یسوع کی پیدائش کے بارے میں
سب زیادہ مفصل بیان انجیل متی اور انجیل لوقا میں پایا جاتا ہے۔ اگرچہ آپ کا یوم پیدائش
25 دسمبر کو منایا جاتا ہے تاہم بیشتر ماہرین کے مطابق یہ تاریخ حتمی نہیں۔ بعض محققین
کے مطابق آپ کی پیدائش گرمیوں کے مہینہ جون میں ہوئی۔ تاریخوں کو معلوم رکھنے کا موجودہ
نظام عیسوی تقویم یسوع مسیح کی تاریحِ پیدائش کی نسبت سے 'قبل از مسیح' اور 'بعد از
مسیح' کی اکائیوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان کے مرتب کردہ عیسوی سال کے مطابق سنہ یکم عیسوی
کو عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی مگرسچ تو یہ ہے کہ عیسوی تقویم چھٹی صدی میں مرتب
کی گئی۔ راہب ڈایونیسیس اکسی گوس (Monk Dionysius Exiguus) نے
526ء میں حساب لگا کر سنہ عیسوی کا اعلان کیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے حساب میں چار
سال کی غلطی رہ گئی۔ اس نے مسیح کی پیدائش رومی تقویم کے سال 754 میں رکھی۔ لیکن ہیرودیس
اعظم جس نے بیت اللحم کے معصوم بچوں کا قتل عام کیا تھا رومی سال 750 میں فوت ہوا تھا۔
اس سے ظاہر ہے کہ یسوع مسیح کی پیدائش 750 سے کم از کم چند ماہ پہلے ہوئی ہو گئی۔ غالباً
وہ رومی سنہ 749 کے شروع میں پیدا ہوئے تھے یعنی 5 ق م کے آخر میں۔ جب اس غلطی کا پتہ
چلا تو یہ ناممکن تھا کہ بے شمار چھپی ہوئی کتابوں میں اس کو درست کیا جائے سو سنہ
عیسوی کو یوں ہی رہنے دیا گیا۔
تو عیسائیوں کا
یہ کہنا کہ 25 دسمبر یکم عیسوی کو عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی ہے ہر لحاظ
سے باطل ہے ۔
ان سب دلائل کے بعد اب اس تاریخ کو اپنے مذہبی تہوار( کرسمس)
کی صورت میں منانے والوں کی عقل پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف
کہ مسلمانوں کے لیے اس تہوار( کرسمس) سے متعلق کیا حکم ہے:
والذين لا يشهدون الزور"* (سورۃ الفرقان : ٧٢)۔ سلف
کی ایک جماعت نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے : "اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو کافروں
کی عیدوں میں شریک نہیں ہوتے۔"
📚
[ تفسیر ابن کثیر : ١١٨/٦
]
"کفار
کی عیدوں پر ان کی عبادت گاہوں کا رخ مت کیا کرو ؛ بے شک ان پر ﷲ کا غصہ اترتا ہے !"
📚
[ سيدنا عمر بن الخطاب رضى الله عنه || مصنف عبد الرزاق :
١٦٠٩ ]
اور بھی اس جیسے بہت سے احکام موجود ہیں جو ہمیں نصاری کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کرتے ہیں اور
ان کے گمراہ ہونے کی وجوہات بتاتے ہیں مگر
سب سے پہلی اور بڑی وجہ عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار
ہے۔
کیونکہ ان کے نبی نے نہ صرف اللہ عزوجل کی توحید ان کو سمجھائ
تھی بلکہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشین گوئی فرماتے ہوئے ان کی پیروی کی تاکید کی تھی۔
خلاصہ کلام یہ کہ نصاریٰ کی مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہما
السلام کی طرف نسبت امر واقع کے خلاف ہے کیونکہ
انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت توحید اور اس بشارت کا انکار کیا ہے جو انہوں
نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں دی تھی، لہٰذا ان کا
اللہ ذوالجلال کی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنا حضرت عیسیٰ
ابن مریم علیہما السلام کا انکار کرنا ہے۔
اور جو لوگ اپنے نبی کے خلاف چل رہے ہوں ان کے بارے میں
آپ کیا رائے دہی معتبر سمجھیں گے؟؟؟
Comments
Post a Comment