صنم کدہ
از احمر رؤف
سیاہ بکھرے بالوں والا وہ شخص جنگل میں ننگے پاؤں آگے بڑھتا جا رہا تھا. اس کے پیروں میں کانٹے اور پتھر چبنے کی وجہ سے زخم ہو چکے تھے جن سے خون رس رہا تھا.
وہ لڑکھڑاتا...پھر سنبھل کر چلنے لگتا.
پیاس کی شدت سے اس کا حلق خشک ہو چکا تھا لیکن وہ اس چیز سے بے پرواہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا.
کافی دیر چلتے رہنے کے بعد وہ ٹھوکر لگنے سے منہ کے بل گر گیا. اس کی پتلون گھٹنوں سے پھٹ گئی.
چند لمحے وہ یونہی گھٹنوں کے بل بیٹھا گہرے سانس لیتا رہا. پھر قریب موجود ایک درخت کی طرف رینگنے لگا.
درخت کے پاس پہنچ کر اس نے تنے سے ٹیک لگا لی.
اس کی سیاہ آنکھوں میں عجیب سی بے چینی تھی.
اس نے نقاہت سے آنکھیں موند لیں.
کچھ پل یونہی گزر گئے.
"تم پر اللّٰہ کی سلامتی ہو اے نوجوان..! "
آواز کانوں میں پڑنے پر اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں.
چند قدم کے فاصلے پر سفید بالوں اور داڑھی والے بزرگ کھڑے تھے.
ان کے جسم پر پیوند لگے کپڑے اور کندھے پر ایک تھیلا تھا.
بزرگ اس کے مقابل آ کر زمین پر بیٹھ گئے.
وہ خاموشی سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا.
شاید جس چیز کی اسے تلاش تھی وہ ان کے چہرے پر موجود تھی.
"کیا نام ہے تمہارا؟" انہوں نے بہت نرم لہجے میں اس سے پوچھا.
"عبداللّٰہ.." اس نے بے تاثر لہجے میں کہا.
بزرگ نے تھیلے سے پانی کی بوتل نکال کر اس کی طرف بڑھائی جسے عبداللّٰہ نے فوراً تھام لیا اور ڈھکن کھول کر ایک ہی سانس میں پوری بوتل خالی کر کے گہرے گہرے سانس لینے لگا.
"کس چیز کی تلاش نے تمہیں یوں جنگل میں بھٹکنے پر مجبور کر دیا اللّٰہ کے بندے. ؟"
ان کے پوچھنے پر وہ کچھ دیر خاموش رہا.
اس کی نظریں قریب ہی ایک درخت پر خاموش بیٹھی چڑیا پر پڑیں.
"سکون.... " اس کے لب ہلے.
بزرگ یک ٹک اسے دیکھ رہے تھے.
اس کا چہرہ اس کی تھکاوٹ اور شکست کا ثبوت پیش کر رہا تھا. جیسے وہ سالوں سے یونہی بھٹک رہا ہو.
"میرے پاس سب کچھ ہے دولت شہرت آسائشیں محبت کرنے والے لوگ لیکن سکون نہیں ہے ..." چڑیا اسی خاموشی کے ساتھ درخت سے اڑ گئی.
اس نے سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھے بزرگ کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر سکون تھا.
"لوگ کہتے ہیں کہ دولت بے سکونی کا باعث بنتی ہے لیکن میری زندگی میں تو تب بھی سکون نہیں تھا جب دولت نہیں تھی.. جب میں ایک گمنام زندگی گزار رہا تھا.
کوئی مجھے جانتا تک نہیں تھا.
میں نے دن رات محنت کی اور ایک کامیاب لکھاری بن گیا. میرے لکھے ڈرامے ہٹ ہونے لگے اور میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا.
لیکن اس بلند مقام پر بھی مجھے اپنا وجود پستی میں نظر آیا.. "
اب وہ اپنے خون آلود پیروں کو دیکھ رہا تھا.
"تم ایک ایسی چیز کی تلاش میں ہو جو تمہارے اپنے اندر موجود ہے.. کبھی اپنی ذات کو کھوجا تم نے؟"
بزرگ نے اس سے ایسا سوال کیا تھا جس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا.
وہ خاموشی سے اپنے پیروں کو دیکھتا رہا.
بزرگ نے اپنے تھیلے سے مرہم نکالا اور اپنی قمیص سے کپڑا پھاڑ کر وہ مرہم اس کے پیروں پر کپڑے کی مدد سے لگانے لگے.
وہ مزاحمت نہ کر سکا.
"اچھائی برائی جنت دوزخ سکون بے سکونی ہر شے انسان کی ذات کے اندر موجود ہوتی ہے..کچھ لوگ اپنے اندر کی دوزخ میں جلتے ہیں اور کچھ لوگوں نے اک جنت کو اپنے اندر بسایا ہوتا ہے.
کچھ سکون کی معراج پر ہوتے ہیں اور کچھ بے سکونی کی دلدل میں..یہ سب کچھ انسان کے اپنے اوپر منحصر ہے وہ جس چیز کو چاہتا ہے اسی کو اپنے اوپر حاوی کر لیتا ہے. "
وہ سر جھکائے اس کے زخموں پر مرہم رکھ رہے تھے.
وہ ان کو دیکھنے لگا.
"تو کیا سکون پانا میرے اپنے اختیار میں ہے ؟" عبداللّٰہ نے فوراً پوچھا.
اب وہ سیدھے ہوئے اور مرہم والی ڈبیا واپس تھیلے میں رکھنے لگے.
"ابراھیمؑ کو جب آگ میں پھینکا گیا تو وہ آگ ان کے لیے سکون والی کیوں بن گئی..کیونکہ انہوں نے اس لمحے اپنے آپ کو آپ کو اللّٰہ کے سپرد کر دیا تھا. انہوں نے اپنے ایمان کو ڈگمگانے نہیں دیا..
انسان پر بے سکونی تبھی حاوی ہوتی ہے جب اس کا خدا پر یقین کمزور ہونے لگتا ہے..انسان پر جب کوئی مشکل آتی ہے تو وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ وہ خدا جو اس سے محبت کرتا ہے وہ کیسے اس کو اس مشکل میں تنہا چھوڑے گا؟"
وہ ایک لمحے کو رک کر اسے دیکھنے لگے.
عبداللّٰہ کے لب آپس میں پیوست تھے.
"تم سکون چاہتے ہو تو تمہیں اپنی ہر شے اس کے سپرد کرنی ہو گی حتٰی کہ اپنی ذات بھی.. "
انہوں نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا.
"تمہیں ابراھیمؑ کی طرح صنم کدے کے بتوں کو توڑنا ہو گا.
وہ صنم کدہ جو تمہارے اندر موجود ہے..جسے تم نے بڑی شان و شوکت سے اپنے جسم میں آباد کر رکھا ہے. "
اب وہ اس کے سینے کی طرف اشارہ کر رہے تھے.
'انسان نے اپنے وجود میں ڈھیروں بت کھڑے کیے ہوتے ہیں. کچھ لوگ مادی چیزوں کو پوجتے ہیں تو کچھ اپنی خواہشوں کو.. اور کچھ اپنی ذات کو پوجنے لگتے ہیں..اور جو لوگ اپنی ذات کو پوجتے ہیں انہیں پھر کچھ دکھائی نہیں دیتا..."
عبداللّٰہ کی آنکھیں نم ہونے لگیں.
سارا منظر دھندلا سا گیا.
اس نے بھی تو اپنے اندر ایک صنم کدہ بنا رکھا تھا.
جہاں سب سے بڑا بت اس کی اپنی ذات کا تھا.
"انسان کا دل تو اللّٰہ کا گھر ہے بھلا اس کے گھر میں کبھی بت رکھے ہیں کسی نے؟"
بزرگ کا یہ سوال اس کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہونے لگا.
بتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں. تکلیف کی شدت تھی.
سکون یونہی تو نہیں مل جاتا اس کے لیے تو بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے.
آنسو اندر اس کے دل میں گر کر دل کو پاک کر رہے تھے.
وہ سر جھکا کر ساتھ پڑی خالی بوتل کو دیکھنے لگا.
"اپنے اندر کا صنم کدہ ڈھا دو عبداللّٰہ پھر آگ بھی تمہارے لیے گلزار بن جائے گی.."
"انسان کیسے ڈھائے اس صنم کدے کو. ؟" اس کی آواز لرز گئی.
"اللّٰہ کے ذکر سے...کیونکہ سکون تو صرف اسی کے ذکر میں ہے. "
بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے.
عبداللّٰہ بھی ان کے مقابل کھڑا ہو گیا.
"تمہیں ایک ایسی بات بتاؤں جس سے سکون تمہاری روح میں سرائیت کر جائے..؟"
انہوں نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا.
"خود کو اس کی مخلوق کے لیے وقف کر دو میرے بچے.. وہ تمہیں اپنا بنا لے گا.. "
انہوں نے مسکرا کر اس کا کندھا تھپکا اور ایک طرف کو چل پڑے.
وہ بہت دیر تک وہاں کھڑا ان کو دیکھتا رہا.
اور وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئے تو اس نے سر جھٹک کر واپسی کی راہ پر چلنا شروع کیا.
"اے خدا مجھے اپنا بنا لے... اے اللّٰہ مجھے اپنا بنا لے.. "
اس کے لب بے اختیار یہ ورد کرنے لگے.
صنم کدے کے سارے بت گر کر پاش پاش ہو گئے تھے.
ختم شد
Comments
Post a Comment