Khud ki pehchan Article by Sameen Khan

” خود کی پہچان“

انسان جسے” اشرف المخلوقات“ کے خوبصورت لقب سے نوازا گیا ہےِ، جسے تمام مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے، جس نے دریاؤں کا سینہ چاق کیا، جس نے پہاڑوں کومسخر کیا ہے۔ آج کا انسان چاند پر تو پہنچ گیا مگر اپنے آپ تک نہ پہنچ سکا، اُس کی ہوا میں تحلیل ہوتی مختلف آوازوں تک رسائ ہے مگر اپنے ضمیر کی آواز کو سننے کے لیے وہ اپنے کانوں پر خودغرضی کے پردے سجاۓ بیٹھا ہے۔ ہمارے ضمیر کی آواز میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اگر انسان کا ضمیر ایک بار جاگ جاۓ تو اس کی آواز ان خودغرضی کے پردوں کو چیر پھاڑ کر انسان کے زہن سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے کیونکہ انسان کا ضمیر اُسی وقت جاگتا ہے جب انسان اُسے جاگنے کا موقع دے۔ انسان اس دنیا کو کافی حد تک پہچان گیا ہے، وہ اس میں پوشیدہ توانائیوں کو بھی کافی حد تک مسخر کر چکا ہے۔ مگر سب سے بڑا راز تو اسکی اپنی ذات ہے جسے تلاش کرنا شاید وہ بھول چکا ہے۔ اس مصروف دور میں انسان یہ بھی بھول چکا ہے کے اسکی ان سب کامیابیوں کے پیچھے ایک ایسی ذات موجود ہے جو  لاشریک ہے، جسکی رحمت بےحساب ہے،جسکے جلوے چار سو ہیں۔ اگر ہم اپنی ذات پر غور کریں تو اُس ذاتِ برترکے معجزات سے ہم روشناس ہوں گے۔ ہماری خود کی پہچان  ہی تو اس ذاتِ برتر کی پہچان ہے، وہ جو ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے، وہ جو ہمارے اور ہمارے دل کے درمیان حائل ہے۔ اس بےحد مصرف دور کی مصروفیات نے ہمیں خود سےدور کر دیا ہے ، ہماری ذات، ہماری سوچ اور ہمارے اخلاقی رویوں کا تعین ہمارے اردگرد بسنے والے لوگ کرتے ہیں، وہ لوگ جن کو اس بات کا علم بھی نہیں کے وہ خود کون ہیں۔ ہماری شخصیت صرف ہمارے نام یا کام میں پوشیدہ نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ہمارے اندر، ہمارے دل کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے جسے ہم بذاتِ خود بھی لاعلم ہوتے ہیں۔ ہماری یہی لاعلمی ہمارے اندر انتشار، بےچینی اور خدا پر عدم یقینی کا باعث بنتی ہے۔ ہم عدم یقینی کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ دعا مانگنے کے بعد ہم آسمان پر اس کی رضا کو تلاش کرتے ہیں پر اس کی لامتناہی ذات تو ہمارے ہی اندر، ہمارے دل میں موجود ہے بس ہمیں تھوڑی سی لگن اور اپنی پہچان، خود کی تلاش کی ضرورت ہے۔

کیونکہ:

        ”جس نے خود کو پا لیا، اس نے

     خدا کو پا لیا۔“        

**************

Comments

Post a Comment