Hum orange train ka kya hal karen gy Article by Dr. Babar Javed

*ہم اورنج ٹرین کا کیا حال کریں گے؟*

ڈاکٹر بابر جاوید

لاہور میں اورنج ٹرین کے افتتاح کو کتنے ہی دن گزر چکے ہیں اور میں ابھی تک اس کے سفر کے مزے سے محروم تھا،دوستوں نے بتایا کہ  یہ ایک نہایت خوشگوار تجربہ ہے،یوں لگتا ہے جیسے بندہ کسی ویسٹرن ملک میں  آمدورفت کے انتہائی بہترین ذرائع  استعمال کر رہا ہے۔اس بات کا تو  پکایقین تھا کہ یہ ٹرین عالمی معیار کے تمام پیمانوں کو چھو کر ہی یہاں تک پہنچی ہے اور اس کو پاکستان لانے والے مبارک باد کے مستحق ہیں لیکن ہم کیسی قوم ہیں کہ اس کے اصل معمار کو جیل میں ڈال رکھا  ہے اور اس منصوبے کے بد ترین مخالفین نے اس کا افتتاح  کیا ہے۔ایک  حکومتی ترجمان نے تو اس کے افتتاح کے دن کو یوم سیاہ  منانے کا مشورہ دےڈالا۔انہی جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا اور اس کی لاگت میں بہت اصافہ ہوا۔کچھ خصوصی دستاویزات کے مطابق گرانٹس اور سبسڈیز کی مد میں45ارب روپے اضافی خرچ کیے گئے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے لاگت میں اڑتیس ارب روپے کا اضافہ، تعمیرات کی مد میں 9ارب 40کروڑ، لیسکو، این ٹی ڈی سی، سوئی گیس اور لیسکو کی یوٹیلٹیز کی منتقلی میں 3 ارب15 کروڑ، منصوبے کے چاروں پیکجز میں1ارب95کروڑ 90 لاکھ روپے کا اضافہ سامنے آیا ہے۔اس تاخیر کی وجہ کے موجب جسٹس صاحب لندن میں عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔

شہباز شریف کا کہنا  درست تھا کہ ’’میں عوام کیلئے پھول لگاتے ہوئےسڑکیں اور پل بناتار ہوں گا۔یہ منصوبہ 22 ماہ پہلے شروع ہونا تھا مگر یار لوگوں نے اس عظیم منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن اس تاخیر کے باوجود اورنج لائن ٹرین بازی لے گئی،  میں نےمیٹروبس اور اورنج لائن ٹرین غریب عوام کیلئے بنائی ہے۔ مجھے مزید موقع ملا تو خیبرپختونخواہ اور سندھ میں بھی اورنج ٹرین منصوبہ بناوں گا۔ عام آدمی کو اورنج لائن سے فائدہ ہوگا۔ ‘‘

مجھے آج اس مالٹائی رنگ کی ریل گاڑی پر سفر کرنے کا موقع ملا بلکہ میں نے یہ موقع خود پیدا کیا۔ پہلےتو سیڑھیوں پر کھڑے گارڈ نے روک لیا اور ماسک کا تقاضا کیا۔یہ ایک اچھی اپروچ ہے۔ہمیں بغیر ماسک کے سفر نہیں کرنا چاہیے۔اور الیکٹرک سیڑھی پر قدم رنجا ہوا۔دل میں پہلا خیال یہ آیا  کہ چلو کم از کم ہر اسٹیشن پر کسی ایک کو تو ماسک فروخت کرنے کا کاروبار نصیب ہوا،مجھے خدشہ ہے کہ عمران خان ایک کروڑ نوکریوں  دینے کی گنتی میں ان ماسک فروشوں  کو بھی شامل نہ کر لیں۔خیر جیسے ہی  میں پہلے فلور پر پہنچا ،یہ دیکھ کر شدید حیرت بلکہ تکلیف ہوئی کہ پورا فلور انتہائی گندا،جگہ جگہ ٹشو پیپرز گرے پڑے ہیں،امپورٹیڈ ٹائلوں کے بنے فرش پر گرد وغبار نہایت واضح نظر آیا۔صفائی کے اس ناقص انتظام نے موڈ کا خانہ خراب کر دیا۔جیسے ہی ٹکٹ گھر پہنچا تو ایک نہایت خوش اخلاق صاحب آ ئے اور ٹکٹ کا پوچھا میں سو کا نوٹ دیا انھوں نے بڑی شائستگی سے ٹوکن میرے ہاتھ میں تھما دیا اور آ گے کا گائڈ کر دیا ۔پھر ایک اور سیڑھی چڑھ کر دوسرا فلور آیا جہاں ایک خوبصور ٹرین کھڑی تھی۔گیٹ پر کھڑے گارڈ بہت خوبصورت وردی میں ملبوس  استقبالیہ انداز میں گاڑی پر سوار ہونے کا بتا رہے تھے۔ان گارڈز کا یونیفارم بہت شاندار تھا۔ اور عملہ نہایت چاک و چوبند دیکھ کر بہت اچھا لگا کیونکہ یہ میرے وطن میں ایک نئے دور کا اضافہ تھا جیسے ہی میں نے گاڑی میں قدم رکھا ،یہ دیکھ کر اور بھی  خوشی ہوئی ٹرین کےفرش پر صفائی اور ٹرین کی سیٹیں نہایت صاف ستھری اور خوشگوار ماحول تھا۔ میں ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔لیکن ایک افسوس یہ دیکھ کر بھی ہوا کے ہم بحیثیت ایک قوم کب سمجھدار ہوں گے بد تمیزی اور شور و غل کے ساتھ سفر میں دوسری سواریوں کو پریشان کرنا یہی ہمارا کام ہے۔ اور یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ یہ ہمارے ملک کا اساسہ ہے جس کی حفاظت اور صفائی کا خیال اب ہم نے رکھنا ہے۔ اور ایک سمجھدار قوم کی طرح ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہونا ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ اس منصوبے سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بڑی حد تک مکمل ہوا ہے کیونکہ  اس ٹرین کے علاوہ میٹرو بس نے بھی شہر کے ایک بڑا حصے کوکور کر رکھا ہے، باقی روٹس پر اورنج لائن ٹرین شہریوں کو سستی سفری سہولت فراہم کرے گی۔

لوگوں سے اپیل ہے کہ ان اسٹیشنز پر آپ بھی صفائی کا خیال رکھیں اور ارباب اختیار سے بھی درخواست ہے کہ اس منصوبے کا اور خاص طور پر اسٹیشنز کی حالت کا خیال رکھیں ۔ایسے شاہکار روز روز نہیں بنتے۔

شکریہ شہباز شریف

Comments