واہ کینٹ ( جلا لسر) کی تاریخی اہمیتاز قلم ۔ ڈاکٹر بابر جاوید۔
یہ ذکر ہے سن 1580کا جب واہ کا نام واہ نہیں ’’ جلالسر‘‘ ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مغل بادشاہ اکبر کی حکومت تھی۔ شہنشاہ اکبر کے ایک وزیر راجہ مان سِنگھ جو شہنشاہ جہانگیر کے برادرِ نسبتی بھی تھے ان کو 1581میں یہاں تعینات کیا گیا تاکہ وہ دشمنوں کو اٹک پار کرنے سے روک سکیں۔
یہ وہی راجہ مان سنگھ ہیں جن کے نام پر پاکستان کے ایک بہت خوبصورت شہر اور سیاحتی مقام مانسہرہ ( ناران، کاغان، بالاکوٹ وغیرہ) کا نام مانسہرہ رکھا گیا-
راجہ مان سنگھ 1581سے 1586 تک یہاں رہے اسوقت حسن ابدال اور جلالسر کی پہاڑی ( موجودہ واہ گارڈن) ایک وادی کا منظر پیش کرتی تھیں جہاں سے اب جی۔ٹی روڈ گزرتا ہے۔ چنانچہ راجہ مان سنگھ نے اس جگہ کا انتخاب کیا اور یہاں بارہ دروازوں پر مُشتمل ایک باغ اور خوبصورت تالاب بنایا جس کو آج کل مغل گارڈن واہ یا واہ گارڈن کہا جاتا ہے۔
29 اپریل 1607 کو مغل بادشاہ جہانگیر کابل جاتے ہوئے جب یہاں سے گزرے تو یہ خوبصورت جگہ دیکھتے ہی ان کی زبان سے نکلا ’’ واہ ‘‘ ۔ چونکہ مغلوں کی زبان فارسی تھی اور فارسی میں واہ حیرت کے اظہار کے لئیے بولا جاتا ہے۔
لہذا شہنشاہ کا یہ لفظ تاریخ کے ورق پہ ثبت ہو گیا اور اس علاقے کو جلال سر کی بجائے ’’ واہ‘‘ کہا جانے لگا۔
اس جگہ کا ذکر بادشاہ جہانگیر نے اپنی کتاب میں بھی کیا جس میں وہ لکھتے ہیں کے :
’’ بارہویں محرم ۱۰۱۴ ھجری بابا حسن ابدال میں قیام کیا۔ اس مقام کی مشرقی سمت میں ایک کوس کے فاصلے پر ایک آبشار ہے جس کا پانی بہت تیزی سے گرتا ہے اور اس تالاب کے وسط میں آبشار کا منبع ہے ۔ راجہ مان سنگھ نے ایک مختصر سی عمارت بنوائی ہے، تالاب میں چوتھائی گز لمبی مچھلیاں بکثرت ہیں۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے جال ڈال کر دس بارہ مچھلیاں پکڑیں اور ان کی ناک میں موتی ڈال کر پھر پانی میں چھوڑ دیا۔‘‘
تخت نشینی کے بعدمغل بادشاہ جہانگیر کے بیٹے شاہ جہاں نے سن 1639 میں پہلی بار یہاں قیام کیا اور اپنے مرکزی محکمہ تعمیرات کو یہاں بلایا اور عمارت کو از سرِ نو تعمیر کرانے کا حکم دیا ، اس دور کے ماہرِ تعمیرات احمد معمار لاہوری نے یہاں کے باغوں ، محلات اور سرائے کے نقشے تیار کیے اور دو سال تک اپنی نگرانی میں تعمیر کرایا۔
اس باغ کی تعمیر مُغلیہ طرز پر کی گئی اور خوبصورت نہریں بنوائی گئیں۔ اس تصویر میں تالاب کے عقب میں نظر آنے والی پہاڑی حسن ابدال کی ہے ۔ شاہ جہاں کے ہم عصر مورخین عبدالحمید لاہوری نے اس باغ کو بہشتِ امین اور محمد صالح کنبوہ
نے قائم مقامِ گُلستانِ ارم کے انقلاب سے منسوب کیا۔
باغ کی تکمیل کے بعد مغل بادشاہ شاہ جہاں نے مزید چار دفعہ سن 1646, 1647, 1649 اور 1654 میں یہاں قیام کیا ۔
اس کے بعد مغل دور کے بہت عظیم، روشن ضمیر اور نیک بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے بھی جولائی 1676میں یہاں قیام کیا۔
اس کے بعد 1747 سے 1826کے دوران احمد شاہ ابدالی (جن کے بیٹے حسن شاہ ابدالی کے نام پر حسن ابدال کا نام حسن ابدال پڑا تھا)اور پھر 1826 سے 1849 کے دوران سکھ رُول کے دور میں یہ باغ بہت بُری طرح متاثر ہوا ۔
کیونکہ سکھ سپہ سالار ہری سنگھ نالوہ (جس کے نام پر حسن ابدال کے قریبی ہزارہ کے شہر ہری پور کا نام ہری پور رکھا گیا تھا)نے مسلمانوں کی تمام عمارات اور مقبروں کو مسمار کرنے کی کوشش کی جس میں حسن ابدال میں واقع شہزادی لالہ رخ اور حکیموں کے مقبرے کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ واہ کے اس باغ پہ بھی حملہ کیا گیا۔
سن 1848 میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھوں کے درمیان لڑی جانے والی دوسری لڑائی میں واہ کے ایک سردار کرم خان نے ایک انگریز بریگیڈئیر جان نیکولسن جو ٹیکسلا کے قریب ایک حملے میں زخمی ہوا کی جان بچائی مگر اس واقعے کے بعد سردار کرم خان کے بھائی فتح خان نے ان کا قتل کر دیا لیکن 1857 کی جنگِ آزادی کے دوران یہی جان نیکولسن ایک مسلم سپاہی کالا خان کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کی یاد میں 1868 میں ٹیکسلا بائی پاس کے قریب جی ٹی روڈ پہ اسی پہاڑی پہ 40 فٹ اونچا گرینائیٹ کا ٹاور تعمیر کیا گیا جو ’’ نیکولسن اوبلیسک‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے اور اب بھی موجود ہے۔
چنانچہ سردار کرم خان کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئیے اسی وفاداری کی بدولت انگریز حکومت نے1865 میں واہ کے اس پورے علاقے بشمول مغل گارڈن واہ کا انتظام ان کے بیٹے نواب محمد حیات خان کے حوالے کر دیا جن کی قبر ابھی بھی واہ گارڈن کے تالاب کے کنارے موجود ہے۔
انگریز دور میں اسلحے کی ضروریات کے پیشِ نظر برصغیر میں 16 اسلحہ ساز فیکٹریاں بنائی گئی تھیں مگر قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے حصے میں صرف ایک اسلحہ ساز فیکٹری آئی جو واہ میں ہی قائم تھی اور ’’ رائل آرڈنینس فیکٹریز‘‘ (ROF) کے نام سے مشہور تھی۔
اس لئیے قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے مزید اسلحہ ساز فیکٹری بنانے کی منظوری دی لہذا دسمبر 1951 میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین نے اسی فیکٹری کے ساتھ مزید چار ورکشاپس کا افتتاح کیا اور رائل آرڈنینس فیکٹریز کوپاکستان آرڈنینس فیکٹریز (POF) کا نام دے دیا گیااور چوہدری سردار خان پی۔او۔ایف کے پہلے ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل بنے۔
سن 1951 میں ہی واہ کو چھاؤنی یعنی کینٹ ( واہ کینٹونمنٹ) کا درجہ دیا گیا اور POF کے ملازمین کے لئیے رہائشی منصوبے (کوارٹرز) کا بھی افتتاح کیا گیا۔
واہ کینٹ کے وسط سے گزرتا ہوا مال روڈ دراصل وہی جی۔ٹی روڈہے جو سن 1545 میں برصغیر کے عظیم حکمران شیر شاہ سوری نے بنایا تھا مگر 1951میں واہ کینٹونمنٹ کے قیام کا ساتھ ہی جی۔ٹی روڈ کا روٹ تبدیل کر کے اسے واہ کینٹ کے باہرسے گزارا گیا اور اندر سے گزرنے والے روڈ میں ترمیم کر کے اسے مال روڈ کا نام دیا گیا۔
90 کلومیٹر سکوئیر رقبے پر پھیلے اس خوبصورت شہر کی آبادی اب تقریباََ ساڑھے تین لاکھ ہے۔ چاروں جانب حسن ابدال ، دھامرہ ،خان پور اور ٹیکسلا کی پہاڑیوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے واہ کینٹ کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگ جاتے ہیں ۔
دار الحکومت اسلام آباد سے صرف 30 کلومیٹر فاصلہ اور صدیوں پُرانی تاریخی اہمیت ہونے کی وجہ سے اس وقت واہ کینٹ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کا سب سے پُرامن ، خوبصورت اور 97 % شرح خواندگی رکھنے والا شہر ہے۔
واہ سے ملحقہ تاریخی شہر ٹیکسلا (حولیاں) میں واقع دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کے کھنڈرات کی دریافت اور گندھارا تہذیب و تمدن کی ایک یادگار ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ذہانت اس شہر کی مٹی میں شامل ہے اسی لئے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر دو یونیورسٹیاں ایک میڈیکل کالج دو انجنئیرنگ کالج اور سینکڑوں سرکاری اور پرائیویٹ سکولز اور کالجز موجود ہیں۔
یہ تاریخی مواد بہت سی تاریخی کتابوں اور حوالوں کو یک جاہ کر کے لکھا گیا ہے ۔
Comments
Post a Comment