سوچ سے بڑا ہتھیار نہیں
اسٹیفن
ہاکنگ کو دنیا کے ذہن ترین انسانوں میں سے ایک اور آ ئن سٹائن کے بعد دنیا کا دوسرا
بڑا سائنس دان مانا جاتا ہے اس نے بلیک ہولز پہ جو کام کیا وہ نا قابل ِ فراموش ہے
۔اسٹیفن ہاکنگ کی وجہ شہرت اس کے کام سے ذیادہ اس کی بیماری ہے۔ ایم ایس سی تک وہ ایک
نارمل طالب علم تھا جو کیھلنے کودنے میں دلچسپی لیتا تھا۔ سائیکل چلاتا ، کشتی رانی
کے مقابلوں میں حصہ لیتا ، فٹ بال کیھلتا اور روزانہ پانچ کلو میٹر دوڑ لگتا تھا۔ وہ
۳۶۹۱ ءمیں
کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا جب وہ ایک دن اچانک سیڑھیوں سے پھسل گیا
۔ اسے ہاسپٹل لے جایا گیا ، جہاں اس کے طبی معائنے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ وہ دنیا
کی پیچیدہ ترین ، دل کی بیماری جس کو اے ایل ا یس کہتے ہیں، میں مبتلا ہے ۔ اس بیماری
میں انسان کے اعضاءآ ہستہ آ ہستہ مفلوج ہو جاتے ہیں۔
اس سے پہلے سائنس دانوں کا خیال
تھا کہ جسمانی اعضاءدماغ سے کنٹرول ہوتے ہیں اور دماغ کو انسانی جسم کا محور قرار دیا
تھا لیکن یہ نظریہ اس وقت غلط ثابت ہو گیا جب بیسویں صدی میں اے ایل ایس کا پہلا مریض
سامنے آیا جس سے یہ انکشاف ہوا کہ انسانی جسم کے اعضاءدل سے کنٹرول ہوتے ہیں او ر اسٹیفن
ہاکنگ بھی ا ے ایل ایس کا شکار ہونے والا ایک ا یسا ہی مریض تھا جس کے جسم کے تمام
اعضاء ایک ایک کر کے مفلوج ہو تے گئے او ر وہ پلکوں کے علاوہ وہ جسم کے کسی حصے کو
حرکت نہیں دے سکتا تھا یوں اسٹیفن ہاکنگ اکیس
سال کی عمر میں مفلوج ہو نے والا انسان تھا اور ڈاکٹروں نے اس کے ذندہ رہنے سے بھی
مایوسی کا اظہار کر دیا تھا۔
لیکن دنیا آ ج جس اسٹیفن ہاکنگ
کو جانتی ہے وہ ایک کامیاب انسان ہے جس کی سوچ نے دنیا میں کئی نئے انکشافات کئے ۔
سوال یہ ہے کہ ایک مفلوج انسان سے دوسرے بڑے سائنس دان کا سفر کیسے ہوا ؟ یہ سفر ایک
سوچ کا ہے کیونکہ اسٹیفن ہاکنگ نے بیماری کے باوجود کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اس لیے اس نے ہار نہیں مانی اور آج وہ دوسرا بڑا سائنسدان مانا جاتا ہے۔
سوچ سے
ذیادہ ہتھیاروں میں ، اور بڑا ہتھیار نہیں ہے
اسٹیفن ہاکنگ کی ریسرچ اور دریافتوں
نے سائنس کو نئی راہیں دکھائی ہیں وہی ا ن کی سوچ دنیا کے لیے ایک اہم راستہ ہے ۔ انہوں
نے کچھ کرنے کی ٹھانی تو کر دکھایا اور دنیا کو بتایا کہ ایک مفلوج انسان جب اتنا کچھ
کر سکتا ہے تو لوگ جسم کے تمام تر اعضاءکے ساتھ کیوں کچھ نہیں کرسکتے ۔ اکیس سال کی
عمر میں وہ اس بیماری کا شکار ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے پاس دو راستے تھے ۔ بستر پہ لگ
کے موت کا انتظار کرنا یا جو زندگی باقی ہے اس میں کچھ کر جانا۔ اگر وہ پہلے راستے
پہ چلتے تو جسمانی طور پہ نہ بھی سہی لیکن ذہنی طور پہ بہت پہلے مر چکے ہوتے اور آ
ج دنیا کو پتا بھی نہ ہوتا کہ اسٹیفن ہاکنگ کے نام سے کوئی انسان اس دنیا میں آیا بھی
تھا۔ لیکن ا نہوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا، اپنی زندگی کو با مقصد بنایا۔ ڈاکٹر
کی رائے کے بر عکس انہوں نے ایک لمبی زندگی گزاری شاید اس لیے کہ قدرت انسان کی سوچ
اور فیصلوں کا احترام کرتی ہے کیونکہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ، بے شمار صلاحیتیں
دی اور کائنات اس کے لیے مسخر کی۔ تو ایسے میں جو انسان کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہے۔
قدرت اس کو وقت اور موقع دیتی ہے اور شاید یہ وقت اور موقع تو سب کو ہی ملتا ہے بس
انسان اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ یہ ہم سب کے لیے سوچنے کا لمحہ ہے کہ مفلوج انسان
جب اتنا کچھ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کچھ کر سکتے ، ہم کیوں اپنی صلاحیتوں کو ضائع
کر رہے ہیں۔ہم ذمہ د اریاں لینے سے ڈرتے ہیں، ہم نا کامی سے خوف کھاتے ہیں۔ اس خوف
سے باہر نکل آ ئیں کیونکہ نا کامی اور کا میابی بعد کی بات ہے ۔ پہلی چیز آ غاز ہے۔
آ غاز کریں پوری ایمانداری اور زندہ دلی سے ، کامیابی مقدر ضرور بنے گی۔ کیونکہ قدرت
انسان کی کوششوں اور ارادوں کا پھل ضرور دیتی ہے ۔
لیکن ا فسوس انسان انسانوں کی احترام
نہیں کرتا۔ کوئی کچھ کرنے کا ارادہ کرے تو اس کی ٹانگ کھینچنا ، مذاق اڑانا یہ عام
ہو گیا اور جب ان کوششوں سے کوئی نا کام ہو جاتا ہے تو پھر اسے اپنے کچھ نہ کرنے کی
دلیل بنا لیتے ہیں۔ خود کو مضبوط بنائیں ، کچھ کرنے کی فیصلہ کر لیں اور سفر کا آ غاز
کر دیں اور اس سفر میں دوسروں کا اور اپنی ذات کا احترام کریں ۔ نہ کسی کے خوابوں کو
کچل کے اپنا راستہ بنائیں اور نہ دوسروں کو یہ اجازت دیں کہ کوئی آپ کے خوابوں کو کچل
سکے ۔ ہم سب کو اس دنیا سے جانا ہے ۔ جو زندگی ہمیں ملی ہے وہ گزر جائے گی ۔ فیصلہ
یہ کرنا ہے کہ ہم بے کار بیٹھ کے ایک دن اس دنیا سے چلے جائیں گے یا اس دنیا میں اپنا
کچھ نہ کچھ حصہ ڈال جائیں گے۔ یہ زندگی ،صلاحیتیں اور وقت ہمارے پاس امانت ہے ، یہ
سب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہمارے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے ۔ ہم مٹھی خالی ہونے کے ڈر سے
اس کو بنیچتے رہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں یہ سب تو ریت کی طرح پھسل رہا ہے جتنی
مٹھی زور سے بند کی اتنا تیزی سے پھسلے گا۔ کیونکہ صلاحیتیں جتنی استعمال کریں اتنی
نکھرتی جاتی ہیں۔ وقت میں برکت آ جاتی ہے اور زندگی جسمانی طور پہ ختم ہو بھی جائے
تو بھی کام اور نام زندہ رہتا ہے۔ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم جینا ایسے چاہتے
ہیں کہ جیسے مر چکے ہوں یا مرنا ایسے چاہتے ہیں کہ ہم زندہ رہیں ، اپنی کسی بات سے
، کسی عمل سے۔ بس ایک لمحہ چاہیے جس میں ہم خود کو یہ یقین دلائیں کہ ہم کچھ کر سکتے
ہیں اور وہ کام ہمیں کر کے جانا ہے۔
کچھ
تجزیے ایسے بھی نظروں سے کزرے ہیں کہ اسٹیفن ہاکنگ نے ایسا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں
کیا۔ ان کی شہرت کی وجہ در اصل ہمدردی ہے جو ان کو بیماری کی وجہ سے ملی ۔ بلیک ہولز
کے بارے میں ان کے کام کی تردید ، کئی سائنس دانوں کے ہاتھوں ہو چکی ہے ۔ یہ بات سچ
مان لی جائے تو بھی ایک طرف ڈھلکی ہوئی گردن والے معذور و مفلوج انسان نے دنیا کے اربوں
تندرست اور ذہین لوگوں کو غلط فہمی کا شکار کر دیا کہ وہ ایک بہت بڑا سائنس دان ہے
۔ تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ تو تھا اس انسان میں کیونکہ یہ بھی ایک بہت بڑا کار نامہ
ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ ” جب لوگ تہمارے بارے میں بات کر نے لگیں تو سمجھ لو کہ
تم کچھ کر رہے ہو “۔
رومانہ گوندل
************************
Comments
Post a Comment