Online education system by Mehreen Fatima

آن لائن ایجوکیشن سسٹم 
از ۔۔۔مہرین فاطمہ،مظفر گڑھ


کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال معاشی اور سماجی خطرہ بن کر دنیا بھر کو تباہ و برباد کر چکی ہے، سماجی رابطوں میں کمی زندگی کی بقاء ٹھہری جبکہ معیشت اور معمولات زندگی کے بعد سب سے زیادہ متاثر طلباء ہوئے۔لاک ڈاؤن سے دنیا بہت تیزی سے آئن لائن منتقل ہوئی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق یہ ڈیجٹل دنیا کا عروج ہے۔جہاں عالمی وبا نے دنیا میں مختلف شعبہ جات کی اشکال بدل دیں ، وہاں نظام تعلیم کو بھی نیا ڈھنگ بخشا۔     ترقی یافتہ ممالک میں پہلے سے ہی نظام تعلیم آن لائن تھا لیکن ترقی یافتہ ممالک کے لیے یہ آفت ایک چیلنج ثابت ہوئی۔ جسے آسان الفاظ میں "آن لائن ایجوکیشن سسٹم"کہتے ہیں ۔  اسی وجہ سے ترقی پذیر ممالک نے نظام تعلیم کو آن لائن منتقل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کوشش شروع کر دی۔  پاکستانی نظام تعلیم تو پہلے سے دیمک زدہ تھا، اب تو کرونا وائرس نے اسے جڑ سے پکڑ لیا ہے۔ آن لائن کلاسز کے علاؤہ اور  کوئی حل نہیں تھا جس سے نظام تعلیم کو جاری رکھا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کے مطابق کرونائی دور نے 6۔1 بلین بچوں کو سکول سے باہر کر دیا ہے۔
لاک ڈاؤن کی ابتداء ہی سے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ،ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے آئن لائن کلاسوں کے ذریعے نرسری تا پی ایچ ڈی تعلیم دینے کی جدو جہد شروع کر دی۔ تاہم نرسری تا ہائر سیکنڈری آن لائن تعلیم کے اطلاق میں صرف نجی تعلیمی ادارے ہی کامیاب رہے جبکہ حکومتی تعلیمی ادارے عظیم الشان عمارتوں اور کثیر بجٹ کے باوجود آن لائن تعلیم دینے میں ناکام ثابت ہوئے ۔ سوائے حکومت کے جس نے "تعلیم گھر"کے نام پر پرائمری تا ہشتم تک بچوں کے لیے تعلیمی   چینل چلا تو دیا لیکن کیبل آپریٹرز اسے سب سے آخر میں مہیا کرتے ہیں جو بچوں اور ان کے والدین کی پہنچ سے دور ہے۔ تعلیم گھر ویب سائٹ پر موجود ہے لیکن ہمارے حال پرائمری سطح سے ہائر ایجوکیشن تک طلباء اور اساتذہ ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن ، یونیورسٹیوں اور حکومتوں نے بھی آن لائن تعلیم دینے کا کبھی نہیں سوچا تھا، کرونا کی وبا سر پر آئی تو تب ان سب کو خیال آیا۔ پاکستان میں یونیورسٹیوں کے پاس آن لائن نظام نہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا ایپلی کیشنز یوٹیوب،گوگل کلاس روم،زوم اور واٹس ایپ کا سہارا لیا گیا۔ 
ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیز کو ہدایات جاری کی کہ جن یونیورسٹیوں کا لرننگ منیجمنٹ سسٹم (LMS) فعال ہے وہ آن لائن کلاسز کا فوری طور پر آغاز کریں تاکہ طلباء کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو جبکہ بقیہ یونیورسٹیز اسے یکم جون سے فعال بنائیں۔ نجی اور حکومتی جامعات میں موجود بیشتر پروفیسر آئی ٹی سے بے خبر اور سمارٹ فون سے دور ہیں اس حکم نامے نے ان سب کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔ آن لائن کلاسز کے فوری نفاذ نے طلباء اور اساتذہ کو نفسیاتی طور پر بہت متاثر کیا، ان حالات میں خود ساختہ تنہائی کے دوران ان لائن تعلیم حاصل کرنا جبکہ اساتذہ کی آواز سمجھ ناں آئے یا صاف نہ آ رہی ہو، رابطہ بار بار کٹ رہا ہو اور ان سے دوبارہ پوچھ پانا بھی ممکن نہ ہو تعلیمی اعتبار سے نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباؤ میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ 
جس ملک کی 63 فیصد سے زیادہ آبادی گاؤں میں آباد ہو اور جہاں بنیادی انسانی  ضروریات روٹی کپڑا اور مکان تک پوری نہیں وہاں کمپیوٹر، سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کا تصور بھی محال ہے۔ آن لائن تعلیم شہری اور دیہاتی طلباء میں طبقاتی تقسیم پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گریڈز پر اثرانداز ہوگی کیونکہ دونوں کے ماحول میں بہت فرق ہے۔ بعض جامعات نے اعلان کر دیا کہ مڈٹرم امتحانات اسائمنٹس کی بنیاد پر لیے جائیں گے ۔ پالیسی میکرز اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسائمنٹس کی تکمیل مطلوبہ ذرائع کے بنا ممکن نہیں اور یہ طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔
آن لائن کلاسوں کے دوران طلباء کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ طلباء ، استاد اور ہم جماعتوں کی موجودگی تعلیمی تحریک کا باعث ہوتی ہے۔ جب کہ آن لائن تعلیم میں یہ سلسلہ نہی ہوتا ۔ 
دوردراز  علاقوں میں کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ، سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی بنیادی مسئلہ ہے، انڑنیٹ کی بہتر سروس اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی مہارت اور آن لائن سسٹم کی آگاہی نہ ہونا پروفیسرز اور طلباء کے بہت پریشانی کا باعث ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک اندازے کے مطابق  6۔3  بلین لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہیں۔یہ افراد کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

 معاشی طور پر کمزور خاندانوں کے لیے اپنے بچوں کو یہ مہنگی سہولیات مہیا کرنا نا ممکن ہے اور مہنگے پیکجز کروانا جو ان کی فیسوں کے علاؤہ ان پر اضافی معاشی بوجھ ہے۔ جوائنٹ فیملی میں رہنے والے اساتذہ اور طلباء کو دوران آن لائن کلاس گھر کے اندر اور باہر کا شور کچھ سننے اور سمجھنے نہیں دیتا۔ دور دراز علاقوں میں موبائل کارڈ اور ایزی کارڈ میسر نہیں ہے۔ شمالی علاقہ جات، قبائلی علاقوں، بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کے بہت سے علاقوں میں تو انٹرنیٹ کی 3جی اور جی4 کی سہولت  میسر ہی نہیں۔ وہاں تو واٹس ایپ  کے میسجز موصول ہونے میں دو سے تین دن لگ جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ ٹھیک چل رہا ہو تو لوڈ شیڈنگ کسر پوری کر دیتی ہے۔ 
اساتذہ کو آن لائن لیکچرز کی تیاری، ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ سے لے کر آن لائن ڈلیور کرنے تک  کئی طرح کے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ آن لائن کلاس کے دوران طلباء کو دو سے تین گھنٹے سکرین پر نظر جما کر بیٹھنا مشکل ہے ۔ وہ پروفیسرز جو ایک ہی دن میں چار   کلاسز پڑھاتے ہیں ان کا کیا حال ہوتا ہو گا ؟ لائبریریوں تک عدم رسائی کی وجہ سے  آن لائن تعلیم کے دوران ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء کو ریسرچ میں مشکلات کا سامنا ہے۔  
یونیورسٹیز کو چاہیے کہ اساتذہ اور طلباء کو لرننگ منیجمنٹ سسٹم(LMS) کی ٹریننگ اور راہنمائی فراہم کریں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور  گورنمنٹ ٹیلی کام کمپنیوں سے اشتراک کریں،  حکومت ان کمپنیوں کو دور دراز علاقوں میں 3 جی اور 4 جی انٹرنیٹ کی فراہمی پر زور دے، نجی  شعبہ  اور بزنس کمیونٹی کو آن لائن ایجوکیشن سسٹم کے قیام کے لیے  ٹیکنالوجیکل انویسٹمنٹ پر آمادہ کرے، ریسرچ کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈیجیٹل لائبریری کا لنک ایل ایم ایس میں فراہم کرے ۔ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ NSB کو استعمال کرتے  کمپیوٹر لیبز کو فعال کرے اور وہاں سے ان لائن لیکچرز شروع کروائے۔
 ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال ختم ہونے کے بعد طلباء یعنی بچوں کی دو قسموں سے واسطہ پڑے گا  ایک وہ بچے ہوں گے جو پہلے نہیں جانتے تھے مگر اب جان گئے ہیں جبکہ دوسری قسم بچوں کی وہ ہو گی جو کچھ جانتے بھی  تھے،  مگر اب کچھ نہیں جانتے۔ لہٰذا  ایسی صورتحال میں آن لائن تعلیم  کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔  
ایک طرف کرونا اور دوسری طرف آن لائن کلاسوں کے حقیقی مسائل، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور متعلقہ ادارے طلباء کے ان غور طلب مسائل کا حل جلد از جلد تلاش کرے تاکہ ملک کے مستقبل  کے ان معماروں  کے تعلیمی فہم کے نقصان  کو بچایا جا سکے۔۔۔

Comments