Maan afsancha by Aiman Sagheer

 

افسانچہ:

مان

لکھاری:

ایمن صغیر

ہاں اب میں نے فیصلہ کرلیا تم پریشان نہ ہو جو سوچ لیا بس اب وہ ہی ہوگا میرا فیصلہ نہیں بدلے گا ۔میں رات کو بارہ بجے گھرسے نکل جاؤ گی تم بس گھر کے پیچھے ہی موجود رہنا۔چلو اب میں فون رکھتی ہوں تم بس وقت سے آجانا

بائے ۔

سدرہ کہاں ہو جلدی کچن میں آؤ سارا کام پڑا ہے ۔

 باہر سے آتی آواز پر اسُ نے جلدے سے فون آف کیا اور اپنے کپڑوں کی الماری میں چھپادیا۔

 یہاں تو ہر وقت کام ہی رہتا ہے۔ زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے میری سب کچھ اپنی مرضی سے کرنا ہےزندگی میری اور فیصلے دوسرے کریں گے ایسا میں ہونے نہیں دوں گی۔ سدرہ منہ ہی منہ میں بڑبراتی کچن کی طرف بڑھی ۔

کیا کررہی تھی کب سے آوازیں دے رہی ہوں ؟

جی بھابھی بس وہ کمرے میں تھی اس لئے آواز نہیں آئی۔

اچھا یہ زرا جلدی سےسالن بنالو پھر تمہارے بھائی بھی آتے ہوں گے ۔

ثناء نے کٹی ہوئی لوکی اسُ کے جانب بڑھائی تو وہ منہ بکھاڑتی ہانڈی بنانے لگی۔

بس کچھ گھنٹوں کی بات ہے پھر مجھے اس قید خانےسے آزادی مل جائے گی پھر میں چین کی زندگی بسر کروں گی واجد کے ساتھ۔ سدرہ ہنڈیا میں ہاتھ چلاتی خود سے ہمکلام تھی۔

٭٭٭٭

وہ بےچینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی رات کے گیارہ بج رہے تھے

 بھائی بھابھی بھی اپنے کمرے میں سونے کے لئےجاچکے تھے

 اسُ نے دھیرے سے اپنی الماری کھولی اور موبائل نکال کر جلدی جلدی نمبر ملانے لگی ۔۔

ہیلو کہاں تک پہنچے ۔ اسُنے سرگوشی بھری آواز میں پوچھا؟

 ہاں بس دس منٹ تک آجاؤ گا تم تیار ہونا واجد نے پوچھا ۔

ہاں سب سو گئے ہیں۔ میں کچھ ہی دیر میں ملتی ہوں تم گلی کے کونے میں میرا انتظار کرنا ۔۔مجھے بھی اب اسُ گٹھن بھری زندگی ہے نجات ملے گی پھر ہم ساتھ زندگی بسر کریں گے کسی کی کوئی دخل اندازی نہیں ہوگی سدرہ نے خوشی سے چور لہجے میں کہا ۔۔

اچھا اب تم جلدی آؤ میں بھی نکلنے کی کرتی ہوں ۔اسُ نے یہ کہتے فون بند کیا اور الماری سے ایک ہینگ بیگ نکالا اسُ میں اپنے کچھ کپڑے اور ضروری سامان رکھنے لگی۔

واجد کی چھوٹی سی کاسمیٹک کی دکان تھی سدرہ کا اکثر ہی وہاں جانا لگارہتا تھا رفتہ رفتہ ملنا بڑھتا رہا اور بات محبت تک جا پہنچی۔آس سے پہلے وہ اپنے گھر میں بات کرتی  یہاں اسمائیل نے سدرہ کا رشتہ اپنے کسی دوست سے طے کردیا ۔۔

سدرہ نے پوری کوشش کر کے دیکھ لی کے کسی طرح رشتے سے منع ہوجائے مگر اسمائیل نے کوئی بات نہیں سنی۔۔۔

تو  پھر سدرہ نے تمام احوال  واجد کو کہہ سنایا ۔۔۔اور واجد کے ہی مشورے پر گھر سے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا اور آج وہ یہ انتہائی قدم اٹھانے جارہی تھی۔۔۔

٭٭٭٭٭

اس نے خاموشی سے باہر کی طرف قدم بڑھاہے تھے دل بری طرح کانپ رہا تھا وہ کبھی بھی اتنئ بہادی نہیں تھی مگر ضد، غصے نےاور کچھ واجد  کی محبت بھری باتوں نے اس کے دماغ کو مفلوج کردیا تھا۔ و

ہ دھیمے قدم اٹھاتی ثناء کے کمرے سے گزر رہی تھی جب اسمائیل اور ثناء کی آواز پر رکی وہ دونوں اسُی کے متعلق ہی گفتگو کررہے تھے ۔

اسمائیل مجھے ڈر لگ رہاہے سدرہ کہیں جزبات میں آکر کوئی غلط قدم نہ اٹھالے ۔۔ میں نے اسُ کے آنکھوں میں بغاوت دیکھی ہے۔وہ خوش نہیں ہے اس رشتے سے ۔۔کل کہیں وہ سب کے سامنے کچھ کہہ نہ دے ۔

تم پریشان نا ہو ثناء میں جانتا ہوں اپنی بہن کو وہ تھوڑی ضدی ہے مگر وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی جیسا تم سوچ رہی ہو۔ وہ میرامان ہے

وہ کبھی میرے مان کو ٹھیس نہیں پہنچائے گی۔ اسُے معلوم ہے اسُ کا بھائی کتنی محبت کرتا ہے اسُ سے وہ نہ سمجھ ہے اپنا اچھابرا ابھی پتہ نہیں ہے پر کچھ بھی ہو وہ کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جس سے مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے مجھے پورا بھروسہ سے اپنی سدرہ پر ۔ تم فکر مت کرو اسمائیل نے ثناء کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں میں بھی نا بھلا سدرہ کبھی آپ کی عزت پر حرف بھی آنے دے سکتی ہے بہت محبت کرتی ہے وہ آپ سے ۔۔

اسمائیل اور ثناء کی باتوں نے سدرہ کو ساکت کردیاتھا وہ تو جیسے سانس لینا بھی بھول گئی تھی۔وہ واجد کی محبت میں اس قدر اندھی ہوگئی تھی کے اپنے بھائی کی عزت کی بھی پروا نہیں کی تھی ۔۔آنکھوں پر سے محبت کی پٹی ایک جھٹکے میں ہٹی تو احساس ہوا تھا وہ کس قدر غلط قدم اٹھانے جارہی تھی۔ سدرہ کو شدید شرمندگی اور ندامت ہورہی تھی اسے اپنے آپ سے نفرت ہورہی تھی وہ ایک لمحہ گنوائے بنا اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی ۔

یا اللہ میں یہ کیا کرنے جارہی تھی جو بھائی مجھ پر اتنا بھروسہ کرتا ہے جس کا میں مان ہوں میں ہی اپنے بھائی کا مان توڑنے چلی تھی جس بھائی نے مجھے باپ کی طرح پیار دیا اور بھابھی نے ماں بن کر پالا میں انہی کی کے سروں پر خاک مَلنے جارہی تھی ۔ یاالہی مجھےمعاف کردے مجھے معاف کردے میرے اللہ ۔میرے مولا تیرا شکر تو نے مجھے بہکنے سے پہلے ہی سمبھال لیا ورنہ میں کبھی اپنے آپ سے نظریں ملانے کے قابل نا ہوتی سدرہ نے روتے ہوئے سر کو سجدے میں جھکالیا وہ اللہ سے معافی مانگ رہی تھی ۔۔وہ شرمندہ تھی کے اپنے جان سے پیارے بھائی بھابھی کو وہ دھوکہ دینے جارہی تھی ۔اسے احساس ہوگیا تھا بڑےجو کرتے ہیں بچوں کی بہتری کے لئے ہی کرتے ہیں۔

***************

ختم شد

Comments