Kia Pakistan me esa mumkin nahe by Dr Babar Javed

کیا پاکستان میں ایسا ممکن نہیں
ڈاکٹر بابر جاوید۔


اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو راجہ پرویز اشرف کے علاوہ کوئی بھی حکمران ایسا نہیں جو کسی غریب گھر کا چراغ ہو۔یہاں فوجی جنرلوں کے علاوہ وڈیرے،زمیندار اوراشرافیہ ہی بر سر اقتدار رہی۔میں آپ کو امریکہ جیسے بڑے ملک کے ایک صدر  جمی کارٹرکی کہانی سناتا ہوں جس کا تعلق عام اور غریب گھرانے سے تھا ۔مونگ پھلی کے ایک عام تاجر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے اس ورسٹائل صدر نے ذریعہ معاش کے لئے متعدد پیشے اختیار کئے، خود ہاتھ سے کام کیا،مونگ پھلی پیک کر کے بیچتے رہے، لوہے کے کام میں والد کا ہاتھ بٹاتے رہے، باپ کی موت نے اندرسے توڑ دیا لیکن خود کو منظم کرتے ہوئے کئی پیشے اختیار کرنے کے بعد بالآخر کرسی صدارت پر فائز ہو گئے،وہ عزم ہمت کی زندہ مثال ہیں جس کا اظہار انہوں نے اپنی خود نوشت ،’’اے فل لائف‘‘ میں بھی کیا ہے۔کتاب کو پڑھنے سے ہم سابق صدر کی زندگی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
 جمی کارٹر سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے صدور میں سے نہیں تھے ،امریکی پیمانے کے مطابق انہیں غریب کہا جا سکتا ہے، انہوں نے جارجیا میں آنکھ کھولی، ان کے والد مونگ پھلی کے عام سے تاجر تھے،نسلی پرستی کے خلاف سیاہ فاموں کی تحریک کا مرکز یہی ریاستیں تھیں۔تعلیمی ترقی کے لئے جان لڑانے کے حوالے سے والد کی پوری ریاست میں کافی شناخت تھی۔تعلیمی ترقی سے متعلق بورڈ کے ممبر بھی تھے۔کارٹر نے صرف5برس کی عمر میں باپ جیمز ارل کارٹر کا ہاتھ بٹانا سیکھا۔ لوہار کے کام میں بھی والد کا ہاتھ بٹاتے ۔ جمی کارٹر کا بچپن اسی طرح گزر گیا۔ کھلونے خود بنالیا کرتے تھے، والد پر کبھی بوجھ نہیں بنے۔جمی کارٹر کی زندگی دوسرے کسانوں سے مختلف نہ تھی، وہی کھیتوں میں کام کرنا، مونگ پھلی کے پیکٹ بنانا اور ضرورت پڑنے پر خود ریلوے سٹیشن یا قریبی مارکیٹ میں جا کر فروخت کرنا۔ والد نے محنت سے کبھی جی نہیں چرایا۔ ڈیئری کی مصنوعات بنانے میں بھی ان کا ثانی نہ تھا۔وہ گھر کا بنا ہواکیچپ بھی فروخت کرتے ۔
جمی کارٹر کی والدہ  لینن نرس تھیں۔گھر میں ہوتیں تو 20گھنٹے کام کرنا معمول تھا۔معاشی دبائو کے دو رمیں انہوں نے کبھی کسی مریض کو مایوس نہیں لوٹایا،کسی کسان کے پاس علاج کے بدلے انڈے ہوتے تو بھی انکار زبان پر نہ لاتیں۔مرغی ، چوزے بھی قبول کر لیتیں، معاوضے کے طور پر کھیت میں کام کرنے کی پیش کش بھی مان جاتیں۔ 14برس کی عمر میں پیش آنے والے ایک واقعے نے جمی کارٹر کو ہلا کر دکھ دیا، کسی آفس میں داخل ہوتے وقت سیاہ فام یکدم پیچھے ہٹ گیا، اور انہیں راستہ دے دیا۔سکول کی تعلیم اسی نسل پرستی کے سائے میں حاصل کی۔ 
1952ء میں، انہوں نے لیفٹیننٹ کی حیثیت سے بحریہ میں شمولیت اختیار کر لی۔بچپن میں لوہے سے کھلونے بنانے کا شغل بہت کام آیا۔ 3.3ارب ڈالر کی آبدوز جمی کی مدد کے بغیر بن ہی نہیں سکتی تھی۔اسی لئے جمی کے نام سے منسوب ہوئی اور ’’یو ایس ایس جمی کارٹر ‘‘ کہلائی۔ پتے کے سرطان میں مبتلا باپ کی 1953ء میں وفات کے بعد جمی بحریہ سے الگ ہو گئے۔ 1962ء میں ’’ووٹرز فراڈ‘‘ کے ایشو پر انتخابات میں حصہ لینے والے جمی کارٹر جارجیا سے رکن سینیٹ منتخب ہو گئے۔ 1971ء میں اسی ریاست کے گورنر اور 1976ء میں صدر امریکہ بن گئے۔ 1978ء کا مصر اور اسرائیل کے مابین ہونے والا ،کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ‘‘جمی کارٹر کے بغیرہو ہی نہیں سکتا تھا، اور 2002ء میں جمی کارٹر کو امن کا نوبل انعام مل گیا۔
دوستو ہم تو بس یہ کہانیاں پڑھ کر خوش ہو سکتے ہیں۔

Comments