Islah ashad zaroorat Article by Muhammad Arslan



"اصلاح اشد ضرورت"

از قلم: محمد ارسلان مجددی

 تنقید اور طنز کا نشانہ ہمیشہ معصوم اور پاک دل والوں کو بنایا جاتا ہے۔یہ کئی دہائیوں سے ہمارے سماج کی سوچ بن گئی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ میاں بیوی مل جل کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں. مگر ارد گرد کے افراد ان کے درمیان آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہتان لگا کر انہیں الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اب فیشن بن گیا ہے کہ کسی پر الزام لگا کر پہلے اس کا گھر بکھیرنا پھر زندگی بھر عورت مرد دونوں کو طعنے دیتے رہنا۔

ضرورت ہے عملی شعور لانے کی جو ہمارے بہت کم گھرانوں میں نظر آتا ہے۔

اس کی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ میں محلے یا گلی کوچے میں لوگوں کو بیہودہ گالیاں دیتے ہوئے سنتا ہوں۔ ایسے الفاظ زبان سے ادا کرتے ہیں جو میں سن کر افسوس کرتا ہوں کہ جس زبان سے اللہ پاک کا پیارا نام لیا جاتا ہے، اسی زبان کائنات کی عظیم ہستی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا نام لیا جاتا ہے اور ان پر درود پڑھا جاتا ہے۔ ایسی پاک زبان سے غلیظ ترین الفاظ کیسے ادا کیے جاتے ہیں۔کہتے ہیں تیر کمان سے اور بات زبان سے نکل جائے تو لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ اسی لئے ہمیں چاہیے کہ اپنے الفاظ کا انتخاب بہترین کریں۔

حضرت علی علیہ السلام کے دو اقوال جو زبان کے متعلق ہیں مندرجہ ذیل ہیں:

"انسان کا زبان شیر کی طرح ہوتا ہے اگر آپ اس کو آزاد کر دیتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی کو مجروح کر دے گا".

"ایک بیوقوف کا دماغ اس کے زبان کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور عقلمند کا زبان اسکے قابو میں ہوتا ہے".

زبان سے نکلی ہوئی بات تیر کی مانند ہوتی ہے اس لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "پہلے تولو پھر بولو".

 

اسی زبان کے غلط استعمال سے نفرت کی آگ سلگائی جاتی ہے آخر کیوں؟

ہم تو ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جس کی "شرح خواندگی" 60 فیصد سے زیادہ ہے۔ یعنی تعلیم تو ہے لیکن عملی شعور کا فقدان ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ کیا ہم تربیت کرنے میں کمزور ہیں۔ یا عمل کرانے میں پختہ ارادے نہیں رکھتے۔

بچپن سے ہم سنتے آئے کہ خاندانوں کے درمیان دہائیوں سے دشمنی ہے یعنی اس دور میں تعلیم و تربیت اور شعور کی کمی تھی۔ آج تو پسماندہ علاقوں تک "حکومت وقت" تعلیم جیسی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

ہم بہتر جانتے ہیں کہ زبان کے بہتر استعمال سے ہی رشتوں میں الفت بڑھتی ہے۔ آج ازدواجی رشتے کے ساتھ ساتھ تمام رشتوں کے درمیان فاصلہ کرانے کی بڑی وجہ زبان کا بڑا کردار ہے۔ الفاظ بہتر انتخاب نہ ہونا۔ پھر لہجہ کا درست نہ ہونا۔ وقت کی مناسبت سے زبان کو قابو نہ رکھنا۔ ان سب کو شعور کو عملی طور ظاہر کرنے اور تعلیم و تربیت کے مطابق خود کو ڈھالنے سے ممکن ہے۔

اسلامی تعلیمات اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ زبان کے بہتر استعمال سے ہمارے اندر برداشت کا مادہ بڑھے گا۔

ہم خود سے عہد کریں کہ اپنے اردگرد موجود افراد کی رہنمائی کرکے ان میں شعور پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ تبھی ہمیں خوشگوار ماحول میسر ہو پائے گا۔ انشاءاللہ


Comments