تعلیمی بد حالی کے زمہ داران کون ؟تحریر۔۔۔۔۔ولید شوکت
کورونا وبا کے پیش نظر جب سکول بند کیے گئے تب تک پرائیویٹ سکولوں میں نتائج کا نہ صرف اعلان ہو چکا تھا بلکہ نئے تعلیمی سال کی کلاسسز بھی جاری تھیں۔جب وبا میں شدت کی بناء پر چھٹیاں طول اختیار کر گئیں تو ان نجی اداروں نے اپنے طلباء کے ساتھ روابط کیے۔آن لائن کلاسسز منعقد کی گئیں۔اسائنمنٹس بنا کر طلباء کو دی گئیں تاکہ وہ والدین کی مدد سے ان کو حل کر کے جمع کروائیں۔اس طرح سکول بند ہونے سے جو تعلیمی نقصان ہوا اس کی کچھ تلافی ہوتی گئی۔اور تعلیمی عمل جاری رہا۔طلبا کا تعلم بھی نہ رکا اور والدین بھی کسی قدر مطمئن رہے۔
نجی تعلیمی ادارے چونکہ پیسے کمانے کے لیے بناۓ گئے ہیں، اس لیے ان میں سے اکثر سکولوں میں وہ سہولیات میسر ہیں جن کا سرکاری تعلیمی اداروں میں تصور بھی نہی ہے ۔مثلا بجلی کی ترسیل میں تعطلی کی صورت میں جنریٹر کی سہولت زیادہ تر سکولوں کے طلباء کو میسر ہے،خاکروب موجود ہیں،آیا اور کینٹین کی سہولت دستیاب ہے،چوکیدار ہے۔طلبا کے لیے فرنیچر ہے۔ہر کلاس الگ کمرے میں منعقد ہوتی ہے تیس طلباء پہ ایک ٹیچر ہے،عمدہ یونیفارم ہے۔۔پالیسیوں میں لچک ہے ،یعنی پالیسی حالات کے مطابق باآسانی تبدیل کر لی جاتی ہے۔
دوسری طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں اکثر سکولوں میں نہ تو آیا ہے اور نہ ہی چوکیدار،خاکروب موجود ہیں اور نا ہی کینٹین۔ جنریٹر کا ذکر تو مضاحکہ خیز لگے گا کیونکہ پورے سرکاری سکولوں میں بجلی بھی نہی ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پانچ سال قبل تک تو آدھے سکولوں میں بجلی کی فراہمی ہی نہی تھی۔باتھ روم نہی تھے، ہزاروں سکولوں میں ابھی بھی ہینڈ پمپ لگے ہوۓ ہیں۔(ایسے آثار قدیمہ سے مزین عمارتوں میں والدین اپنے بچوں کو بھجنے پر کیونکر آمادہ ہونگے)۔چالیس طلباء پہ ایک استاد کی پالیسی کو ختم کر کے ساٹھ طلباء کے لیے ایک استاد کر دیا گیا ہے۔زیادہ تر پرائمری سکول دو کمروں پہ مشتمل ہیں۔مزید تعلیمی پالیسی غیر لچکدار ہے جس کو تبدیل کرنا اساتذہ تو کجا اعلی تعلیمی افسران کے بس کی بات نہی ہے۔ملاحظہ کریں کہ جب کورونا وبا کی وجہ سے سکولوں میں چھٹیاں ہوئیں تو تب تک سرکاری سکولوں میں بچوں کے پیپر نہی ہوۓ تھے۔یعنی نیا تعلیمی سال شروع ہی نہی ہوا تھا،(جب فروری میں کورونا کیس رپورٹ ہونا شروع ہو گئے تھے تو کیوں نہ جلدی سے امتحانات کا انعقاد کروا کر تعلیمی سال شروع کیا گیا تاکہ طلباء کو بروقت کتب کی فراہمی اور نیا سلیبس پڑھنے کی گائیڈ لائن مل جاتی ) وبا کے سبب جب سکول کھولنے ممکن نہ رہے تو بچوں کو تعلیم دینے کے لیے "ٹیلی سکول پروگرام" جیسا غیر دانشمندانہ اور حقائق کے برعکس لائحہ عمل تیار کیا گیا جس سے چنداں فائدہ نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔بچوں کو ہوم ورک دینے کا حکم نامہ جاری ہوا اور اس کی بنیاد پہ پاس کرنے کے احکامات سناۓ گئے مگر سکول کھولنا ممنوع قرار پایا۔اس کے کچھ دنوں بعد تمام طلباء کو پاس کر دیا گیا مگر فری ٹیکسٹ بکس کی فراہمی نہ کی گئی۔ اس تمام عرصے میں استاد اور طالب علم کا تعلق ختم کر دیا گیا۔خدا خدا کر کے بچوں کو کتابیں مہیا کرنے کا کہا گیا تو بچوں نے کتابیں لیں اور اپنے تئیں پڑھائی کی کو شش کی۔اور پھر سمارٹ سلیبس کا سوشہ چھوڑ دیا گیا ۔اس سب میں نہ تو اساتذہ سے مشورہ کیا گیا اور نہ ہی ان کے لیے لچک رکھی گئی کہ وہ بچوں کو کتابیں بازار سے لینےکا کہہ سکیں۔ان کو موجود کتابیں فراہم کر سکیں ،اسائمنٹس وغیرہ دیے سکیں۔سلیبس پڑھانے کا طریقہ کار وضع کر لیں اور طلباء کو طریقہ کار احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوۓ بتا سکیں وغیرہ۔
اب آپ انصاف سے بتائیے کہ ایک استاد بچوں کو وہ تعلیمی ماحول جو کہ اخذ علم کے لیے ضروری ہے ،دینے میں اور ان کو ان کی ضرورت اور استعداد کے مطابق تعلیم دینے میں کب آزاد ہوا ؟؟۔
بلاشبہ ہمارا تعلیمی نظام ان خرابیوں کے سبب انتہائی کسمپرسی کا شکار ہے،یہی وجہ ہے کہ تعلیمی وزراء تک گورنمنٹ سکولوں کو تیسرے درجے کے سکول قرار دیتے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا رجحان نجی تعلیمی اداروں کی طرف زیادہ ہے۔
اساتذہ کو الزام دینا نا انصافی ہے( اتنے کوالیفائڈ ملازم کسی بھی دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں نہی ہیں۔اگر کسی کا دعویٰ ہے تو وہ بتاۓ کہ کس محکمہ کے ملازم کی تقرری کی شرط ماسٹر ڈگری اور بعد میں پیشہ ورانہ ضروری تعلیم ہے۔)۔اساتذہ تعلیمی ابتری کے زمہ دار ہرگز نہی ہیں بلکہ حکومت زمہ دار ہے۔کیونکہ اساتذہ نے تو بجلی،جنریٹر مہیا نہی نا کرنے،اور نہ ہی خاکروب،چوکیدار،آیا وغیرہ کی بھرتی کرنی ہے،(اساتذہ دستیاب وسائل میں بھرپور اور کسی بھی ادارے سے بڑھ کر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔)۔حکومت اگر یہ نہی کر سکتی(اور بہت افسوس کی بات ہے اگر نہ کر سکے تو) تو کم از کم تعلیمی پالیسیوں میں لچک رکھے تاکہ اساتذہ اپنی سہولت کے پیش نظر ان میں معمولی ترمیم کر سکیں۔اور جب آپ ڈیٹ شیٹ ،کتابیں موجود ہونے کے باوجود ان کی فراہمی کو بھی اساتذہ کی صوابدید پہ نہ رکھیں اور اس کے لیے بھی احکامات ملنے تک انتظار کا فرمان سنائیں تو اساتذہ زمہ دار کیسے ہوۓ ؟؟
Comments
Post a Comment