Pakeezah by Muhammad Hassan

 پاکیزہ


اس کی آنکھوں میں خوشی اور انتظار کی جھلک تھی۔ کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ سرخ جوڑے میں ملبوس دلہن مسکرا رہی تھی اور بس دروازے کو دیکھ رہی تھی۔

"اب تک تو اسے آ جانا چاہیئے تھا،پتہ نہیں کہا رہ گی ہے پاکیزہ" دروازے پر دادی پاکیزہ کا انتظار کر رہی تھی اور دل میں پاکیزہ کی سلامتی کی ہر یاد آنے والی دعا پڑھتی جا رہی تھی۔ یہ دعائیں اس بوڑھی دادی کو روز مانگنا پڑھتی تھی۔ اب تک وہ اتنی دعائیں مانگ چکی تھی کہ سوتے میں بھی ان کے لب ہلتے رہتے تھے۔
ابھی دعا کا دورانیہ آدھا گھنٹا ہی چلا تھا کہ پاکیزہ دور سے آتی دکھائی دی۔ اب کی بار شکرانے کی دعا ہوئی تھی۔ وجہ بدلی تھی الفاظ وہی رہے تھے۔

"کہاں رہ گئی تھی تم اتنی دیر کیوں لگا دی یہ پاس والی دکان تک ہی جانا تھا بس" دادی نے سبھی سوال ایک ساتھ کیے تھے۔

آٹھ سالہ پاکیزہ کو ان سوالوں کی عادت ہو گئی تھی۔ان کے جواب اسے روزانہ دینے ہوتے تھے۔ " وہ دکان تو بند ہے دادی، مجھے آگے جانا پڑا، اور ابھی تو گئی تھی میں تم ایسے ہی پریشان رہتی ہو"

دادی کی پریشانی بے جا نہیں تھی۔اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے،بہو اور جوان پوتے کو دفنایا تھا۔ اسے وہ دن آج تک نہیں بھولا تھا جب اسے اطلاع ملی تھی کے اس کے بیٹےاور بہو کو کچھ وردی والوں نے سب کے سامنے مار دیا ہے۔ وہ الفاظ دادی پر بجلی کی طرح گرے تھے۔  آنکھوں کے سامنے دو جنازے اٹھے تھے۔
 ابھی قبر کی مٹی خشک نہ ہوئی تھی کہ چوتھے دن اس کے پوتے کی لاش کچھ لوگ اس کے سامنے رکھ گئے تھے۔اس کے بیٹے اور بہو کا یہ قصور تھا کہ انہوں نے روکے جانے پر تلاشی تو دے دی تھی لیکن ساتھ چلنے سے منع کر دیا تھا۔طاقت کے نشے میں ان لوگوں نے یہ اپنی شان میں گستاخ سمجھی تھی اور انہیں دہشت گرد بول کر گولیوں سے مار ڈالا تھا۔ 
اس کے پوتے کا یہ قصور تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کی موت کا سوال کر بیٹھا تھا۔

اب دادی کے پاس پاکیزہ تھی۔ بیٹے کی نشانی تھی یا ایک ذمہ داری وہ نہیں جانتی تھی۔ بس وہ ہمیشہ دعا کرتی تھی کے اس کی پوتی کا نصیب اس کے خاندان جیسا نہ ہو۔
دادی نہ پاکیزہ کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیتی لیکن جب سے دادی سے چلنا مشکل ہوا پاکیزہ کو دکان تک جانا پڑتا تھا۔ پاکیزہ کبھی کسی لڑکے کے ساتھ نہ کھیلی تھی۔ دادی نے اچھے سے سمجھایا ہوا تھا کہ وہ کسی چھوٹے لڑکے کے ساتھ بھی نہیں کھیلے گی۔ 

"میرے بابا واپس کیوں نہیں آیئں دادی" پاکیزہ کا ہر تیسرے دن کا سوال
"وہ الله کے پاس گے ہیں بیٹا کچھ لوگوں کی شکایت کرنے، الله جب ان کی شکایت سن لے گا تو پھر وہ ہمیں اپنے پاس بلا لے گا اور پھر ہم سب ساتھ رہیں گے"دادی اور کچھ نہ کہہ پاتی۔

دن سالوں میں بدلے اور آج پاکیزہ ایک جوان خوبصورت لڑکی تھی۔وہ اپنے نام کی طرح ہی پاک تھی اس پر کبھی کسی لڑکے اور مرد کا سایہ تک نہ پڑا تھا۔وہ پہچانتی تو تھی مرد کیا ہے پر وہ جانتی نہیں تھی۔ بچپن سے اب تک وہ اس جنس سے بہت دور رہی تھی۔ 
 دادی نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کر دی۔
وہ کمرے میں دلہن بنی اب اس شخص کا انتظار کر رہی تھی۔آج وہ اپنے ہر سوال کا جواب چاہتی تھی اس ایک مرد سے باتیں کرنا اسے سننا چاہتی تھی۔اس نے شادی سے کچھ دن پہلے صرف ایک بار دیکھا تھا اس شخص کو۔ 
آنکھوں میں انتظار بڑھتا جا رہا تھا یا شاید اسے جلدی تھی۔ خوشی اس سے سمبھالی نہ جا رہی تھی۔ یہ وہ پہلا دن تھا جب اسے اپنے ماں باپ اور بھائی یاد نہیں آیئں ۔

انتظار ختم ہوا۔دروازے میں حرکت ہوئی اور ایک شخص مسکراتا ہوا داخل ہوا۔
پاکیزہ نے آنکھ اٹھا کر دیکھا۔پر وہ اس کا شوہر نہیں ٹھا۔وہ تو کوئی اور تھا۔پاکیزہ کا دل ایک دم سے سہم گیا تھا۔
اس شخص کے جسم کے کپڑوں نے پاکیزہ کا سانس روک دیا تھا۔ وہ شخص وردی میں ملبوس تھا۔ پاکیزہ ان وردی والوں سے بچپن سے ڈرتی آئ تھی۔
اس نے دروازہ بند کر دیا تھااور پاکیزہ کے پاس آ گیا تھا۔ اس سے پہلے کے وہ وہاں سے اٹھتی اس شخص نے پاکیزہ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ کسی مرد کا یہ پہلا لمس تھا پڑ اس نے کبھی ایسا شخص نہیں چاہا۔ 

"کہا جا رہی ہو لڑکی، شادی کے بعد سہاگ رات ہوتی ہے ،
کیا اتنا بھی نہیں جانتی،چلو میں بتاتا ہوں" اس شخص کی آنکھوں سے اس کے گندے ارادے نمایاں تھے۔
پاکیزہ ہاتھ جوڑنا چاہتی تھی پر ہاتھ کسی کی گرفت میں تھے،وہ چینخنا چاہتی تھی پر آواز وہاں تھی ہی نہیں" وہ اتنا ڈر چکی تھی کے اس کا جسم اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
اس شخص نے اب ہاتھ چھوڑ دیا تھااور اپنی وردی اتار رہا تھا۔ پاکیزہ میں ایک دم سے جان آئ اور وہ دروازے کی طرف بھاگی پر وہ شخص اس کے راستے میں تھا۔ ایک زور دار تھپر پاکیزہ کے چہرے کو سرخ کر گیا۔ اس گلابی رنگت پر سرخ انگلیوں کا اضافہ ہوا تھا۔ وہ شخص جیسے اس کام میں ماہر تھا اور پہلی بار نہیں کر رہا تھ ایسا۔
تھپر کے ساتھ ہی پاکیزہ کی ہمت جواب دے گئی اس کے وجود نے کچھ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 
وہ شخص اپنی خواہش پوری کرتا گیا اور جیسے چاہا پاکیزہ کی عزت لوٹتا رہا۔ جی بھر جانے پر اس نے اسے وہی بستر پر ہی چھوڑا اور اپنے وردی پہنتا ہوا باہر نکلا۔دروازے پر ایک اور وردی والا موجود تھا۔

"اتنا ٹائم کوں لگایا ہم سب بھی لائن میں ہیں" 
اس کے پیچھے کچھ اور وردی والے بھی اپنی باری کے انتظار میں تھے۔ اور سب سے پیچھے پاکیزہ کے شوہر کا بے جان وجود تھا۔ اس کے جسم سے خون بہنا بھی بند ہو چکا تھا۔
رات بھر پاکیزہ کے جسم سے کھیلا گیا۔ایک کے بعد ایک مرد اپنی ہوس پوری کرتا رہا۔پاکیزہ بے جان تھی۔اس کی آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ آخر میں آنے والے مرد نے شور کیا تھا " یہ لڑکی تو مڑ چکی ہیں کب کی، تم لوگوں نے میرے لئے کچھ نہیں چھوڑا،"
وہ سب اس پر ہنسے تھے اور چلتے بنے، پر وہ آخری شخص بھی رکا نہیں وہ کیسے ہار مان لیتا ،اسے اپنے جسم پر فوج کی وردی کا غرور تھا، اس نے بے جان پاکیزہ سے ہی تسکین حاصل کی تھی اور اپنے ساتھیوں کے پیچھے نکل گیا۔

انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اس سب سے، ان کے افسروں اور گورنمنٹ کی طرف سے ہر ظلم کی اجازت تھی،
انہیں بس ایک کام کرنا تھا، کشمیریوں کو بغاوت سے روکنا تھا اس کے علاوہ وہ وہاں جو چاہتے کر سکتے تھے۔کشمیری لوگ ان کے لیے کھیل تھے جسے وہ ہر روز کھیلتے، کشمیری لڑکیاں ان کے لیے خوبصورتی کی مثال تھی جسے وہ آۓ روز چکھتے۔

پاکیزہ کے جسم سے کھیل کر جاتے ہوئے وہ ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے،
" دہشتگردی نہیں چلے گی، کشمیر ہمارا ہے، کشمیر ہمارا ہے"
--------------------------

لائن کے اس پار بھی شور اٹھا تھا، وہاں بھی نعرے لگائے جا رہے تھے،
"ظلم نہیں چلے گا،کشمیر ہمارا ہے ،کشمیر ہمارا ہے"

---------------------

دادی تک پھر سے اطلاع پہنچائی گئی تھی، وہ اس بار روئ نہیں تھی، شاید سوچ رہی تھی کہ کیا اسی دن کے لیے سنبھالا تھا اس امانت کو،
اگلی صبح دادی کا بے جان وجود ملا تھا۔ لوگوں نے اس گھر کی دیواروں پر کچھ لکھا ہوا دیکھا ،
دادی نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کے خون سے لکھا تھا،
"کیا کشمیر ہمارا ہے؟"

بقلم: محمد حسن 🖋

Comments