Aurat Article by Khushbakht Hamid

ہر عورت شوہر کی ملکہ تو  نہیں ہوتی

لیکن

ہر بیٹی باپ کی شہزادی ہوتی ہے۔

تحرير خوشبخت حامد

عورت چاہے ماں کے روپ میں ہو ، بیٹی ہو، بہن ہو یا  بیوی ہو ہر روپ میں محبت کرنےوالی مجسمہ ہوتی ہے۔از سر تاپا محبت ، خلوص اور وفاداری کا پیکر ہوتی ہے۔عورت کے بغیر گھر آباد نہیں ہوتا مگر  حقیقت میں عورت کا کوئی  گھر نہیں ہوتا ۔عورت کو فتنہ سمجھا جاتا  ہےلیکن زندگی کو آسودہ کرنے کے لیۓعورت کو ہم سفر بنایا جاتا ہےمگر وہ ہم سفر کے گھر کو بھی اپنا گھر نہیں  ک سکتی کیونکہ کسی بھی لحمہ اس کو چھوٹ جانے کا ڈر ضرور ہوتا ہے۔وہ پیدائش سے لیکرموت تک اپنے گھر کو تلاش کرتے کرتے قبرستان تک پہنچ جاتی ہے۔

عورت کے پیدائش پر واویلا ہوتا ہے۔آنکھیں پرنم ہو جاتی ہے۔ گردن جھک جاتی ہے۔ کندھوں پہ بوجھ آپڑتا ہے۔وہ آنکھیں کھولتے ہوۓ اپنے لیے عدوات کے سوا کچھ نہیں دیکھتی وہ اسی دن سے اپنے آپ کو محبت کرنےوالی مجسمہ بنالیتی ہے تاکہ پریت کے بدلہ پریت مل سکےمگر بدقسمتی سے آگر وہ اپنے من مانی کر لیتی ہے تو سب کچھ کھو دیتی ہے کسی کے دل کو جیتے جیتے ہار جاتی ہے۔

عورت کی ساری ذندگی دوسروں کو سمجھنے میں گزجاتی ہے۔مگر کھبی کسی نے اس کو سمجھنے کی زحمت نہیں کی۔اس کی حیثیت ایک  کٹ پتلی سے کم نہیں ہوتی دوسروں کی انگلی  کے اشاروں پہ ناچنا اسکے مقدر میں لکھا ہے ۔وہ بیٹی سے ماں تک دوسرے کے پرداخت زندگی گزارتی ہے۔

بیٹی کی روپ میں بہت نازونخروں سے اس کی پرورش کی جاتی ہے۔وہ باپ  کے لیے شہزادی سے کم نہیں ہوتی۔ اسے کانٹا  چھبننے تک نہیں دیتے۔اسے بیٹی ہونے پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے۔وہ اپنے تابناک مستقبل کی طرف بڑی ہیجان کے ساتھ بڑھتی ہےمگر بڑھتے ہوۓ مجبورآ اسے دوسرے کے سر پر مسلط کیا جاتا ہےاور وہ ازسرنو سے زندگی کا سفر شروع کرتی ہے۔ آگہی کے نۓنۓ دراس اس پر کھل جاتے ہیں ۔ ہمیشہ  شہزادی  بننے کی استدعا ملکہ نننے میں بدل جاتا ہے۔وہ یہ مقام بھی صبر وتحمل ،محبت اور وفاداری سے حاصل کرتی ہے۔اسی وفاداری کی خاطر وہ اپنے مجازی  خدا کو پانے کی جتن میں اپنے حقیقی خدا کو بھول جاتی ہے۔ اسے کے آگے جھکتی ہے مگر وہ ملکہ نہیں ماں بن جاتی ہے اسی مقام کو پاتے ہی وہ اپنے خواہشات ،احساسات اور جذبات کو دفن کر لیتی ہے۔ وہ بچوں کی خواہشات کے خاطر اپنے آپ تک قربان کر دیتی ہے۔ ابتداء  سے اس کی یہی  پاسہ ہوتی ہے کہ اسکے بچوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ ہر کامیابی انکے مقدر کا حصہ بنے۔ ہر نعمت ان کے قدموں میں رکھ دےمگر وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی اپنی محرومیاں اپنی بیٹی کی جھولی میں ڈال دیتی ہے۔بچپن میں اس کے ہاتھ میں گڑیا اور  بیٹے کو سائیکل دیتی ہے وہ تو آزار پرنده کی طرح  اڑ جاتا ہےاور یہ بچی اپنی سہیلوں کے ساتھ  گڑیا کھیلتے ہوۓ سہیلی کے گڈےکو اپنی گڑیا بیا لیتی ہے۔

بچپن میں اسکو یہ ذہین نشین کیا جاتا ہے کہ جیسے اسکی گڑیا اسکی نہ رہی  ویسے وہ بھی آخر کار باپ کی انگلی چھوڑ کر دوسرے کی انگلی تھام لےگی۔جب شہزادی کی آنکھیں نم ہو جاتی ہے۔ تو اس کو یہی کہا جاتا ہے کہ صبر و حوصلہ اور ہمت و برداشت سے  کام لے۔خاموشی کے ساتھ ہر غم کو سہ جا۔ وہ  ہر وفور کو  اپنے گرم آنسو میں چھپا لیتی ہے۔ جب لڑکا روتا ہے تو اسے خاموش کرنے کے لیے یہی کافی ہوتا ہےکہ: رو مت روتی تو لڑکیاں ہے: اور وہ یہ سیکھ جاتاہےکہ آنسو صرف عورت کے مقدر میں لکھے ہیں۔ اسے یہ نہیں  بتایا جاتا کہ خدا اس کے آنسو کو گنتا ہے۔

مرد ہمیشہ اپنے ہر کام کی  ذمہ دار عورت کو ٹھہراتا ہے چاہے وہ جس روپ  میں بھی ہو۔ اس کا ذمہ دار مرد نہیں معاشرہ ہے کیونکہ اسی معاشرے میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کو ہی کہے گا کہ جا  بھائی  کے لیے پانی لا اور وہ معصوم گڑیوں کو چھوڑ کر بھائی کے خدمت میں لگ جاۓگی  کبھی پانی لانا کبھی کھانا رکھنا کبھی جوتے صاف کرنا وغیرہ ۔  ہم نے ہزار بارکتابوں میں یہی پڑھا ہے اور  پڑھایا ہے کہ  محمدﷺ  ہر کام خود کرتے تھے کپڑے دھونا ،دودھ دوہنا، صفائی کرنا ، بکرياں  چڑاہنا وغيره ۔مگر  ہم نے  کبھی اپنے بچوں کو اس پر عمل کرنے کو نہیں کہا ۔

ہمیں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ اسلامی قانون سب  کے لیےایک جیسا ہےلیکن دوسری طرف سزا کا مستحق ہم صرف عورت کو ٹھہراتے ہیں ۔یہ جاننے کے باوجود کے گناہ میں دونوں برابر کے شریک تھےلیکن بد کار بد چلن اور طوائف جیسے القابات صرف عورت کے زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں  ۔ کہتے ہے کہ مرد کا گناہ وقت کے تالاب میں کنکر  کی طرح ڈوب جاتا ہے جب کے عورت کا گناہ ساری عمر کنول کی پھول کی مانند سطح آب پر رہتا ہے۔ بس یہی ایک سچ ہے۔

اس طرح بیٹی کی  قسمت کسی کے ساتھ جوڑتے وقت ہم اس کے اخلاق وکردار اور عزت وزینت کی چھان بین  نہیں کرتےبلکہ ہم اسکے جیون کے ساتھی کے سٹیٹس کو دیکھتے ہیں ۔اور آخر میں اس کی بد قسمتی کا رونا دھونا  کرتے ہیں ۔

ہم اکیسوی صدی میں بھی عورت کو وہ مقام نہیں دے سکے جو چودہ سو صدی پہلے اسلام نے دیا ہے۔ خدارا عورت کو وہ مقام وہ تحفظ دے جو الله نے دیا ہے اور محمدﷺ نے عملی طور پر کرکے دیکھا ہےاور مرد پر فرض کیا

ہے۔ عورت کو کہاں اتنا دبایا گیا ہے کہ وہ اپنا پہچان تک بھول گئ ہے۔ ۔کہی تو اسے اتنی آزادی ملی ہے کہ  اسکا غلط استعمال ہوتا ہے۔ ہر عورت کو چاہئے کہ وہ پیار ومحبت اور عزت واحترام  کا مان رکھےجو نہ صرف اسکا حق ہے بلکہ فرض بھی ہے۔

 

Comments