بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان آگے بڑھتا گیا یا اس نے زندگی کا معیار تبدیل کیا یا اپنا رہن سہن اوڑنا بچھونا تبدیل کیا لیکن جو نہ بدل سکا وہ ہے سوچ کاش کہ انسان اپنی سوچ کا معیار بھی تبدیل کر سکتا۔
آج کے دور میں جہاں انسان خود مختار ہے وہاں بھی ایسے بچے موجود ہیں جو اپنے لبوں کو سی ے ہوئے ہیں اپنے والدین کی عزت کی خاطر خود کو قربان کر دیتے ہیں میں ان والدین سے پوچھتی ہوں کہ آج جو آپ کو ٹھیک لگ رہا ہے کیا ثبوت ہے کہ وہ ٹھیک ہی ہے اور کسی کی زندگی برباد نہیں ہوگی؟
آج کے دور میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی
شادی کا فیصلہ خود سے کر لیتے ہیں زبان دے دی جاتی ہے مہر لگا دی جاتی ہے اور جس نے پوری زندگی گزارنی ہے اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا اسے صرف اطلاع دی جاتی ہے کہ ہم نے یہاں تمہارا رشتہ کر دیا ہے اب تم نے حال میں نبھانا ہے۔اور اگر وہ اپنے لیے آواز اٹھائیں اپنی پسند کا اظہار کریں تو اس کو معیوب جانا جاتا ہے میرا سوال ہے کیوں؟
یہ حق تو اللہ نے بھی انسان کو دیا تو پھر انسان کے حق کیسے چھین سکتا ہے آج کے دور میں ہم خود کو ماڈرن کہتے ہیں لیکن ہماری سوچ تو وہی پرانی ہے ہماری سوچ آج بھی ڈیڑھ سو سال پرانی باتوں میں الجھی ہوئی ہے۔
شادی پوری زندگی کا معاملہ ہوتا ہے خدارا مت کریں زبردستی اگر آپ کے بچے نہیں چاہتے تو ان کی مرضی کا احترام کرے اس کو ترجیح دیں۔
حدیث میں آتا ہے:
ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ ان کا رشتہ طے ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکی کو دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کے نہیں تو فرمایا یا دیکھ لو😊یہ حق اسلام دے رہا ہے ۔
اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے کر آئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے رشتے کے لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا علی فاطمہ کے لئے آئے ہو تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی جی اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالی کا پیغام لے کر اترے کے فاطمہ علی کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے کر گئے اور فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا علی کا رشتہ آیا ہے ہاں کر دوں؟ سبحان اللہ😊 یہ تو جہاں کے آقا خاتون جنت سے پوچھ رہے ہیں ہیں انہوں نے یہ اس لیے کیا تا کہ وہ ہمارے لیے مثال قائم کر سکیں۔
ہم کیا کرتے ہیں ہم جو خود کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کہتے ہیں لیکن ان کے طریقوں کی پیروی نہیں کرتے صرف کہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا جب تک ہم اور آپ ان سنتوں کو زندگی میں شامل نہیں کریں گے زندگی نہیں بدلے گی جب تک ہم اپنی سوچ کا معیار نہیں بدلیں گے یہ معاشرہ بہتر نہیں ہوگا سوچ کو بدل کر ہی معاشرے کو بدلہ جا سکتا ہے۔
آج ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان آگے بڑھتا گیا یا اس نے زندگی کا معیار تبدیل کیا یا اپنا رہن سہن اوڑنا بچھونا تبدیل کیا لیکن جو نہ بدل سکا وہ ہے سوچ کاش کہ انسان اپنی سوچ کا معیار بھی تبدیل کر سکتا۔
آج کے دور میں جہاں انسان خود مختار ہے وہاں بھی ایسے بچے موجود ہیں جو اپنے لبوں کو سی ے ہوئے ہیں اپنے والدین کی عزت کی خاطر خود کو قربان کر دیتے ہیں میں ان والدین سے پوچھتی ہوں کہ آج جو آپ کو ٹھیک لگ رہا ہے کیا ثبوت ہے کہ وہ ٹھیک ہی ہے اور کسی کی زندگی برباد نہیں ہوگی؟
آج کے دور میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی
شادی کا فیصلہ خود سے کر لیتے ہیں زبان دے دی جاتی ہے مہر لگا دی جاتی ہے اور جس نے پوری زندگی گزارنی ہے اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا اسے صرف اطلاع دی جاتی ہے کہ ہم نے یہاں تمہارا رشتہ کر دیا ہے اب تم نے حال میں نبھانا ہے۔اور اگر وہ اپنے لیے آواز اٹھائیں اپنی پسند کا اظہار کریں تو اس کو معیوب جانا جاتا ہے میرا سوال ہے کیوں؟
یہ حق تو اللہ نے بھی انسان کو دیا تو پھر انسان کے حق کیسے چھین سکتا ہے آج کے دور میں ہم خود کو ماڈرن کہتے ہیں لیکن ہماری سوچ تو وہی پرانی ہے ہماری سوچ آج بھی ڈیڑھ سو سال پرانی باتوں میں الجھی ہوئی ہے۔
شادی پوری زندگی کا معاملہ ہوتا ہے خدارا مت کریں زبردستی اگر آپ کے بچے نہیں چاہتے تو ان کی مرضی کا احترام کرے اس کو ترجیح دیں۔
حدیث میں آتا ہے:
ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ ان کا رشتہ طے ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکی کو دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کے نہیں تو فرمایا یا دیکھ لو😊یہ حق اسلام دے رہا ہے ۔
اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے کر آئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے رشتے کے لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا علی فاطمہ کے لئے آئے ہو تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی جی اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالی کا پیغام لے کر اترے کے فاطمہ علی کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے کر گئے اور فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا علی کا رشتہ آیا ہے ہاں کر دوں؟ سبحان اللہ😊 یہ تو جہاں کے آقا خاتون جنت سے پوچھ رہے ہیں ہیں انہوں نے یہ اس لیے کیا تا کہ وہ ہمارے لیے مثال قائم کر سکیں۔
ہم کیا کرتے ہیں ہم جو خود کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کہتے ہیں لیکن ان کے طریقوں کی پیروی نہیں کرتے صرف کہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا جب تک ہم اور آپ ان سنتوں کو زندگی میں شامل نہیں کریں گے زندگی نہیں بدلے گی جب تک ہم اپنی سوچ کا معیار نہیں بدلیں گے یہ معاشرہ بہتر نہیں ہوگا سوچ کو بدل کر ہی معاشرے کو بدلہ جا سکتا ہے۔
Comments
Post a Comment