<<<<<تربیت>>>>
از قلم: *ہبہ پیرزادہ*
؏:ایسی چلن چلو..کریں لوگ آرزو...
ایسے
رہا کرو کہ زمانہ مثال دے...
غالباََ
اس وقت وہ چار سال کی تھی اس وقت اسکے پاس عقل یا شعور نامی کوئی چیز نہیں تھی بابا
کے دوست جنہیں وہ بابا ہی کہتی تھی ہر روز بابا سے ملنے آتے اور اسے اتنے پیسے دے جاتے
جتنی اس وقت اسکی ضرورت تھی مطلب بہت کم ۔
اور اگر انکل کو خود یاد نا رہتا
تو وہ خود یاد دلا دیتی۔ اس دن بھی شاید انکل اسے پیسے دینا بھول گئے تھے اس نے یاد
دہانی کے لئے کہا بابا پیسے..
انکل نےتو پیسے دے دیئے تھے لیکن
یہ آواز دروازے کے پاس کھڑی والدہ تک بھی پہنچ چکے تھے اور اندر داخل ہوتے ہی اسے اتنا
ذور سے تھپڑلگا تھا کہ پیسے ملنے کی ساری خوشی دور ہوچکی تھی اسکی والدہ نے بس اتنا
کہا تھا اب مانگنا کسی سے کچھ اور کمرے میں چلی گئی تھیں.
اب وہ تھی اور اسکے آنسو وہ ناز و نعم میں پلی بڑھی تھی بھائی سب بڑے
تھے تو سب سے خوب پیارلیا تھا پہلی بار اس
طرح سے پٹاٸی
ہونے پر وہ بہت دن تک خاموش رہی تھی کھانا پینا چھوڑ دیا تھا بڑے بھاٸیوں
نے اسے بڑی مشکل سے منایا..
اور
پھر کچھ دن بعد زندگی پھر سے معمول پر آگٸ
اور وہ سب کچھ بھول گئی ...
چھے
سال کی عمر میں وہ والد صاحب کے ساتھ لاہور گئی تھی اور گاڑی میں موجود انکل کو بہت
پیاری لگی تھی انہوں نے اپنی جیب سے کچھ چاکلیٹس نکالے اوراسکی طرف بڑھادیۓ..
لیکن وہ نفی میں سر ہلا کر بابا کےپیچھے چھپ گئی انہوں نے بہت کوشش کی کہ بچی چاکلیٹ
لے لے لیکن بہت کوشش کے بعد بھی اس کی نا، ہاں میں نہیں بدلی.. آخرکار انکل نے اس کے
والد سے کہا کہ آپ کہہ دیں اور والد صاحب کے کہنے پراس نے ایک چاکلیٹ اٹھا لی..
یہ
اسی تھپڑ کا اثر تھا جو اسکو چار سال کی عمر میں لگا تھا.
------- اور آج تک بھی میں ایسی ہی ہوں جو شخص بھی ہمارے گھر آتا ہے
والد صاھب اسے گاڑی والا واقعہ ضرور سناتے ہیں.
اور والدہ صاحبہ کو اس بات پر فخر
ہے کہ انکے تھپڑ کا اثر ابھی تک موجود ہے...
اور
یہ سچ ہے کے تربیت کی عمر بچپن والی ہی ہوتی ہے آج کل دیکھا گیا ہے کہ لوگ بچوں کی
بری عادات پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی بچہ ہے اور جب بڑے ہو کر وہی عادات پختہ
ہوجاتی ہیں تو پھر اولاد پر تشدد کرتے ہیں
حالاں کہ تربیت خود نہیں کی ہوتی...
مجھے نہیں یاد کہ مجھے میری والدہ
نے مارا تھا یا میں نے کسی سے پیسے مانگے وہ انکل بھی یاد نہیں یہ واقعہ میری والدہ
ہی بتاتی ہیں لیکن اس وقت کے ایک تھپڑ نے مجھے ہمیشہ کے لئے سیکھا دیا کے ہاتھ نہیں
پھیلانے چاہے کوئی بھی حاجت ہو ھمیں بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی ہر
بات پیار سے سمجھاٸیں
اگر
سختی کی ضرورت ہو تو تھوڑی سی وہ بھی کر لیں لیکن اپنے بچوں کو معاشرے کا بہترین فرد
بنا دیں تا کہ وہ ہمارے لئے ہمیشہ کا صدقہِ جاریہ بن جاٸیں۔
آپ احباب کا کیا خیال ہے ۔۔
ایسے
کہ...
جیو
تو ایسے کہ زندگی کو رشک آۓ...
مریں
تو خود موت کہے.کون مر گیا یارو...
Comments
Post a Comment