قیدِ تنہائی
از قلم: مریم احمد
مارچ
کا مہینہ اپنے ساتھ ایک ایسى وباء لے کر آیا تھا جس نے دن کے اُجالے میں لوگوں کے اصلى
چہرے دیکھا دیئے۔ انسان اپنے جیسے انسان سے ہى دور بھاگنے لگا، لمبى ملاقاتوں کے سلسلے
تمام ہوئے ، میل ملاپ سے لوگ آرى ہو گئے ، مطلب کے رشتوں کو ایک اژدھے نے چَت گِرا
دیا غرض صرف ایک ذات جو ہماں وقت ساتھ رہى وہ صرف اللَّه کى ذات ہے۔ اِس وباء نے جہاں
بہت سے لوگوں کو آخرى سفر پہ الوداع کیا وہى ساتھ رہنے والوں کے ساتھ کا پردہ بھى اُٹھا
دیا۔ سب سے زیادہ خودکُشى کے کیسیز اِس وباء کے دورانیے میں پیش اۓ
اور جب وجہ دریافت کى گئی تو پتہ چلا دباؤ گلے پر نہیں دماغ پر پڑتا رہا تھا۔ کوئى
فرق نہیں پڑتا ہمارے سامنے کوئی موت کو گلے لگا لئے ، کوئى جیتے جى مر جائے ، خود کو
اذیت کى انتہا پر لے جاۓ
واقع ہمارى زندگى میں تو کوئى فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ کونسا ہمارے سگے تھے۔ اِس دور
میں کوئى خودکُشى جیسى حرام چیز کو اپنے حالات سے تنگ آ کر اگر گلے لگا لے تو یہ دُنیا
اُس پر بھى اتنا وبال کھڑا کرتى ہے کہ خودکُشى بھى وبالِ جان بن جاتى ہے۔ دوسروں کا
سہارا نہیں بن سکتے تو اُن کے لیے مُشکلات کِس حق سے پیدا کرتے ہو۔ یہ وباء کے دورانیے
میں لوگوں کو ایک دوارے کے ساتھ، اُن کے پیار کى ضرورت ہے مگر یہاں کوئى بھى اپنى انّا
سے باہر آنے کو تیار نہیں ہے۔ اِس وقت نے ایک سبق تو دیا یہ دُنیا اور اِس دُنیا کے
سارے رنگ اور رشتے سب فریب ہیں جیسے اِن حالات میں کوئى ساتھ نہیں ویسے ہى روزِقیامت
لوگ آپ کو پہچاننے سے انکار کر دیں گئے ۔ اپنے لئے وقت نکالے، خود کو جھنجھوڑے اور
دیکھے کیا ہے آپ کے پاس اور کیا کھو چُکے ہیں ۔ یہ جو دل ہوتا ہے اِس میں جگہ صرف اللَّه
کى ہے تو پھر اِس جگہ کو کیسے کسى اور کى محبت سے بھرنے کى کوشش کى جاتى ہے۔ خود کو
دوسروں کى قید سے آزاد کرے، اِن وباء کے دِنوں میں خود کو پہچانے ، خود کو اللَّه کے
ساتھ جوڑے اور شُکر ادا کرے کہ اُس نے مہلت دى خود کو سنوارنے کى، نکھارنے کى۔ اپنى
دلچسپی کو جانے کے وہ حق کى طرف لا رہى ہے یا حق سے دور کر رہى ہے۔ اِن حالات نے یہ
ثابت کر دیا موت وقت، عُمر اور مال نہیں دیکھتى وہ آتى ہے اور سب کُچھ بدل کے چلى جاتى
ہے۔ تنہائی بہت قیمتی ہوتى ہے ایسے فضولیات میں وقف کر کے ہم اللَّه سے اُمید رکھ لیتے
ہیں کہ وہ ہمارى پکڑ نہیں کرے گا۔ سارى زندگى مال، مال کر کے دوسروں کى زندگى جہنم
بناتے ہوئے بھی نہیں سوچتے کہ جو اللَّه ہے وہ سب سے بڑا مُنصف ہے ۔ اپنے خیالات کى
حفاظت خود کرنى پڑتى ہے جس طرح نماز اور قرآن ہمارے لیے کوئى دوسرا بندا نہیں کر سکتا
ایسى طرح کوئى دوسرا شخص ہمارى سوچوں پہ کس طرح حاوى ہو سکتا ہے۔ یہ دِن غنیمت ہیں
خود کو اِن قیدوں سے آزاد کرے اور رُوجوں کرے اُسکى طرف جو حقدار ہے۔
نہ
مال زندگى نہ زال زندگى
خود
کو اِس عارضى جنگ سے نکال کے مُستقل کے بارے ميں سوچے اور خیال رکھے اُنکا جو آپکو
دیکھ کر جیتے ہیں بے شک سب سے مُخلص اور پاک محبت والدین کے علاوہ اور کوئى نہیں کرتا۔۔۔۔
دُعاوں
کى طلب گار
مریم احمد
Comments
Post a Comment