السلام
علیکم !
موسم گرما
ازقلم تانیہ شہزاد
انسان
کو اللّٰہ پاک نے بہت لچک دار بنایا ہے کیسا
ہی ماحول ہو کیسا ہی موسم ہو انسان اس میں رہنا سیکھ لیتا ہے۔ایک وہ بھی زمانہ تھا
جب پتوں اور جانوروں کی کھال سے تن ڈھانپ کر جنگلوں میں مارا مارا پھرا کرتا تھا جانوروں
کی ہڈیوں کی مدد سے شکار کر کے گوشت اور درختوں کے کچے پکے پھل اور پتے کھایا کرتا
تھا اور پھتروں سے غار بنا کر رہتا اور چلچلاتی دھوپ میں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑتا
رہتا تھا۔اپنی نسل بڑھانے خود کو موسمی اثرات سے بچانے اور خوراک کے حصول کی خاطر ہر
دھوپ چھاؤں برداشت کرتا انسان ہمیشہ سے ہی بہت سخت جان ہے ہر قسم کے موسمی اثرات سے
خود کو بچا ہی لیتا ہے ایک وہ بھی تو دور تھا جب کڑک دھوپ اور کھلے آسمان تلے بے سروساماں
انسان اپنی بقا کی جنگ لڑا کرتا تھا۔یہ تو اللّٰہ کا کرم ہے وہ تو کسی پر بھی اس کی
اوقات سے ذیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تبھی تو کیسا
ہی موسم ہو انسان اپنی ذات پر سہہ جاتا
ہے۔خیر اب تو جیسے جیسے انسان نے خود کے لیے سہولتیں پیدا کرنی شروع کی ہیں انسان نازک
مزاج ہی ہوتا جا رہا ہے حالانکہ انسان خود کو جیسی چاہے عادت ڈال سکتا ہے ذیادہ دور
کی کیا بات ہے آج سے چند سال پہلے تک تو گھروں میں بجھلی تک کا نام و نشان نہ تھا تو
فرج اے سی پنکھے کا تصور کجا۔ہمارے دیہاتوں میں خوبصورت روایتیں تھیں موسم گرما کو
لے کر گرمیوں کے لمبے لمبے دن گھر کی خواتین پھر بھی صبح سویرے جاگتی تہجد کا اہتمام
ہوتا روایتی طریقوں سے آٹا چکی پر پیس کر گوندھا جاتا دہی بلو کر لسی بنائی جاتی اور مکھن نکالا جاتا
پھر نماز فجر اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد ناشتا بنایا جاتا اتنے میں مرد حضرات نماز
کے بعد مسواک کرتے ہوئے کھیتوں کی سیر سے واپس آتے تو ناشتہ تیار ہوتا صبج سویرے سب
ناشتے سے فراغت پا کر اپنے اپنے کاموں میں جھت جاتے۔کچے گھر کھلے آنگن اور عموماً ہر
آنگن میں بڑا سا سایہ دار درخت۔خواتین ساری دوپہر درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر سلائی
کڑھائی کا کام کرتی رہتی یا پھر گھر کے باہر گلی میں موجود درختوں کی گھنی چھاؤں میں
سب خواتین بیٹھ کر ایک دوسرے سے دل کی باتیں کرتیں اور مختلف کام نپٹاتیں۔چونکہ فرج
کا تصور نہ تھا سو کھانا ضرورت جتنا بنایا جاتا اور ضرورت سے زائد کھانا ایک دوسرے
کے گھر بھجوا دیا جاتا پانی مٹی کے برتنوں میں رکھا حاتا سو وہ ٹھنڈا رہتا گرمی کا
اثر زائل کرنے کے لیے لسی دہی پودینے وغیرہ کی چٹنی اور تازہ پھل سبزیوں کا استعمال
کیا جاتا۔شام کو کھلے آنگن میں تاروں کی چھاؤں تلے چارپائیاں بچھا کر سب کھانا کھاتے
ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور وہیں چاند تاروں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں سو جاتے۔شور
آلودگی سے صاف فضا اور سب سے بڑھ کر بغض حسد کدورتوں اور منافقتوں سے پاک دل۔آہ جیسے
جیسے انسان سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کرتا جا رہا ہے طرز زندگی بہت تیزی سے بدلتا
جا رہا ہے۔اور اب حال یہ ہے کہ تنگ و تاریک مکانات تنگ گلیوں درخت ناپید ماحولیاتی
آلودگی پھیلاتے فرج پنکھے اے سی اور نہ جانے کیا کیا جو وقتی طور پر سکون دیتے ہیں
مگر درجہ حرارت بڑھاتے جا رہے ہیں۔بے شک بدلتے وقت کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا ایک اہم
ضرورت ہے مگر اس سب میں اپنی روایات اقدار اور ماحول کو تباہ و برباد کرنا بھی کہیں
کی عقلمندی نہیں ۔ہم پہلے دور میں واپس نہیں جا سکتے نہ ہی پہلے جیسا ماحول پیدا کر
سکتے ہیں اور اس سب کی ضرورت بھی نہیں مگر ضرورت ہے اعتدال اور میانہ روی۔سے کام لینے
کی اور ضرورت اور خواہش کے درمیان کا فرق سمجھنے کی صرف وقتی سکون اور لذت کی خاطر
اپنا ماحول تباہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟انسان بس اندھا دھند سائنس اور ٹیکنالوجی
کا استعمال کرتا جارہا ہے اس کے نفع نقصان سے بے پرواہ ہو کر اور ایسا۔کرنے میں اس
نے۔خواہشات کو ضرورت بنا لیا ہے۔اور ان کا غلام بن کر رہ گیا ہے اے سی میں رہنے والے
ممی ڈیڈی بچے ہاہر کی گرم ہوا نہیں برداشت کر پاتے اور اے سی کے نقصانات انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ماحول پر بھی
ڈھکے چھپے نہیں مگر انسان خواہشات کی تکميل میں خود کو نازک مز ا ج بناتا جا رہا ہے
فرج میں کھانا بھر بھر کر اگلے دن کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے اور ہمسائے بھوک سے بلکتے
رہتے ہیں یا پھر فرج کے مضر اثرات سے بھرپور کھانا کھایا جاتا ہے۔کلوروفلوروکاربن الگ
اوزون لیئر تباہ کر رہی ہے۔جس سے سورج کی نقصان دہ شعائیں زمین پر پہنچ کر انسانوں
کی صحت تباہ کر رہی ہیں انسان خود کو سہولت دینے کے چکروں میں خود کو تباہ کرتا جا
رہا ہے۔ضرورت ہے توازن قائم کرنے کی۔اور ہر چیز کے نفع نقصان سے آگاہی حاصل کرنے کی
۔اے سی کا بہترین متبادل درخت ہیں جو کہ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈک
کا احساس بھی پیدا کرتے ہیں ذیادہ سے ذیادہ درخت لگانے اور دنیا کو اے سی نامی بلا
سے نجات دے کرخود کو بہت سی تباہ کاریوں سے
بچایا جا سکتا ہے آج بھی مٹی کے برتنوں میں شفا اور ٹھنڈک کا احساس ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی
کو عقلمندی سے استعمال کرکے اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں مگر اندھا دھند خود۔کو
تباہ کرنے میں بھی بھلائی نہیں اور پھر آج بھی بہت سے لوگ بجلی سے محروم ہیں اے سی فرج جیسی خرافات کے بغیر
جی رہے ہیں ہمارے مزدور تپتی
دوپہر میں مزدوری کرتے ہیں وہ بھی تو گرمی کا مقابلہ کر
رہے ہیں خود۔کو جتنا نازک مزاج بنائیں گے اتنے ہی نازک مزاج بنتے جائیں گے۔خود کو تھوڑاسخت
جان بنائیں انسان بہت کچھ سہارنے کی ہمت رکھتا ہے۔سکون کے چکروں میں مزید بے سکونیاں
نہ پیدا کریں۔زرا اپنا موازنہ تو کریں ہم خسارےمیں ہیں اپنوں سے دور ہو کر اے سی والےکمروں
میں قید ہو کر دلوں میں حسد بغض کینے فساد پال رہے ہیں دل تنگ ہو گئے بچانے کے چکروں
میں ہمسائے کا۔احساس نہ رہا اپنی صحت اپنا ماحول آب۔و ہوا سب وقتی فائدے کے لیے اپنے
ہی ہاتھوں سےتباہ کرتے جا رہے ہیں اور نتیجہ کیا ہے طرح طرح کی ذہنی اور جسمانی بیماریاں
۔خدارا ہوش کےناخن لیں خود کو بچا لیں اسی ہزار کا اے سی خریدنے کی بجائے پودے لگائیں
درخت لگائیں سڑکوں پر گلی محلوں میں اپنے گھروں میں چھتوں پر گملے رکھ لیں اگر گھر
میں جگہ نہیں تو کمروں میں رکھنے والے پودے لے آئیں۔زمین پر درجہ حرارت بڑھتا جا رہا
ہے اور اے سی گرمی کم نہیں گرمی ذیادہ کر رہے ہیں۔سوچ سمجھ کر سب استعمال کریں۔گرمی
ہو یا سردی ہر موسم خدا کی نعمت ہے اور اللّٰہ پاک نے انسان کو تمام موسمی اثرات سےبچانے
کا مناسب انتظام کر رکھا ہے۔موسمی پھل سبزیاں مناسب مقدار میں استعمال کریں اور خود
کو گرمی کے مضر اثرات سے بچا کر رکھیں دہی لسی دودھ مکھن استعمال کریں۔نہائیں صحت صفائی
کا خیال رکھیں خود کو ذہنی جسمانی طور پر مطمئن رکھیں اور جب بھی گرمی لگے جہنم کی
گرمی ضرور یاد رکھیں ۔
********************
Comments
Post a Comment