Islah e moashra article by Hiba Peerzada


*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
📚 *اصلاح معاشرہ*
ہبہ پیرزادہ
آج کے دور میں معاشرہ کی اصلاح کرنا تو ہر کوئی چاہتا ہے ۔اور ہر کوئی چاہتا ہے اسے ایک پاکیزہ اور اچھا ماحول ملے لیکن دیکھنا ہے کہ اس اچھے ماحول اور اچھے معاشرے کی اصلاح کے لئے کوشش کون اور کتنی کرتا ہے
سعادت حسن منٹو نے کیا خوب کہا ہے
*میں ایسے معاشرے کا حصہ ہوں جہاں آئینہ کا استعمال صرف شکل دیکھنے کے لئے کیا جاتا ہے*
کچھ پانے کے لیے کچھ اقدامات اور کچھ کوششیں کرنی پڑتی ہیں جب کسی معاشرے کی اصلاح کی بات آتی ہے تو ہم سب کی نظریں حکومت یا حکومتی  اداروں کی طرف ہوتی ہیں لیکن جب ہمارے خواہشات نفس پر غالب آنے کی یا ہمارے خلاف کوئی بات آتی ہے تو ہم سب کو جمہوریت یاد آ جاتی ہے
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو اس لئے معاشرے کی اصلاح کے لئے ہم سب کا ایک اہم کردار ہونا لازمی ہے
اس معاشرے کی اصلاح کرتے ہوئے میں دیکھنا پڑے گا کہ ہم کتنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ہماری کتنی کوششیں جاری ہیں مثال کے طور پر ہم کہیں پارک یا ویزٹ کے لیے جاتے ہیں تو ہم وہاں پر کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن جب صفائی کی باری آتی ہے تو ہم اپنی انا کو سامنے لے آتے ہیں اس معاشرے کی اصلاح کے لیے ہمارا یک جاں ہونا ضروری ہے
*خاک ہو جائے وہ مرتبہ جو دوسروں کے لیے مفید نہ ہو ،لعنت ہے وہ طاقت جو غریبوں کے لئے محافظ نہیں بلکہ اس سے ڈراتی ہے*
(واصف علی واصف)
ہم اپنے چھوٹوں کے لئے ایک کردار ہوتے ہیں جو ہمیں دیکھ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنا رہے ہوتے ہیں ہم ان کو اچھا کھانا اچھا پہنانا اور اچھی بریڈ کے بارے میں بتا دیتے ہیں لیکن درحقیقت جو ان کے لیے ضروری ہوتا ہے وہ بتانا بھول جاتے ہیں ہم ایک بچے کو کیا دوسروں کو کہہ رہے ہیں کہ جھوٹ مت بولو لیکن اس کے سامنے ہم ایک ایسا کردار ہوتے ہیں کہ جھوٹ کو سامنے لا رہا ہوتا ہے ہم سمجھتے ہیں ایک بچہ کچھ نہیں سیکھ رہا ہم اس کے سامنے غلطی پہ غلطی کیے جا رہے ہوتے ہیں لیکن وہ ہمیں کاپی کر رہا ہوتا ہے جس کا جواب وہ میں بہت عرصہ بعد دیتا ہے تب ہم اس بچے پر غصہ ہوتے ہیں کہ یہ اتنا روڈ بھی ہے کیوں کرتا ہے لیکن ہم نے بہت سال پہلے کی غلطیوں کو بھلا چکے ہوتے ہیں
آج ہم نے اپنے معاشرے کی اصلاح کرنے کے لئے بہت سارے ادارے بہت سے اساتذہ تو بنا دیے لیکن ہم اساتذہ کو ہی تعلیم دینا بھول گئے کہ انہوں نے اصلاح کس طرح سے کرنی ہے آج بچوں کو پڑھانے سے پہلے ٹیچرز کو ٹریننگ کی زیادہ ضرورت ہے
اس کے دور میں ہم بچے کی نفسیات کو سمجھنا اپنے تجربات اس پے لاگو کر دیتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں ہم ایک اچھا کردار نبھا رہے ہیں یہ سراسر غلط ہوتا ہے
*انسان کامیاب ہونے کے لئے پیدا کیا گیا ہے*
*مگر اپنی غفلت سے وہ*
*اپنے آپ کو نا کام بنا لیتا ہے*
سب سے اہم بات لیکن افسوس کے اس کو پیچھے کر دیا گیا وہ یہ ہے کہ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد کیا تھا
*اللہ تعالی نے اپنے قرآن مجید میں فرمایا کہ میں نے بیشک جن و انس کو پیدا کیا اپنی عبادت کے لیے*
آج ہم سب اس بات کو بھلائے ہوئے اپنے اسلام کو پیچھے کر کے انگریزوں کے غلام بن کے زندگی گزار رہے ہیں اور ہم اپنے آپ کو ماڈرن ہونے کا ایک اعزاز دیتے ہیں
جب تک ہم اپنے دین کی سمجھ نہیں ہوگی تب تک ہم ایک اچھے معاشرے کی زندگی نہیں گزار سکیں گے
میں ہمیشہ ایک بات  سوچتی ہوں جتنے بھی ممالک ہیں انہیں ان کی اپنی زبان بولی جاتی ہیں سوائے پاکستان کے جس نے اپنی قومی زبان اردو ہونے کے باوجود انگریزی کو دی جاتی ہے سمجھا جاتا ہے کہ وہی کامیاب انسان ہے جس کو انگلش آتی ہے مانا کے اس سے بہت سال پہلے سر سید احمد خان نے کہا تھا کہ
*اگر تم انگریزوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں انگریزی زبان سیکھنا لازمی ہوگی*
لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ انگریزی زبان کو آپ لوگ اپنا سرمایہ بنا لینا
الحمدللہ سب سے پہلے بچے کے ذہن میں بات بھی اٹھاتے ہیں وہ یہ ہوتی ہے کہ اگر تمہیں انگریزی نہیں آئے گی تو تم دنیا کے ایک کامیاب انسان نہیں بن سکوں گی اور اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکو گے اور طبیعت سے وہ بچہ اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیتا ہے کہنا مجھے انگریزی آئے اور نہ میں کچھ کر سکوں گا
اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری ملک کے لئے ہمارے معاشرے کے لئے ایک اچھا کردار ہونے کے بجائے ایک فساد بن جاتا ہے
ہم تب تک اپنے معاشرے کی اصلاح نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنا نقطہ نظر نہ بدل لیں
*جس معاشرے میں "سب چلتا"ہو پھر وہ معاشرہ مشکل سے ہی چلتا ہے*
دوسروں کی غلامی کرنے کے بجائے اگر ہم اپنی جمہوریت اسلام اور اپنے آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزارے تو ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کر سکتے ہیں ہر کام میں مشکل ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں
آخر پر ایک شعر کہنا چاہونگی
*یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی*
*سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی*
(سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے )
*ہبہ پیرزادہ*
**********************

Comments