السلام علیکم!
انسان
ازقلم تانیہ شہزاد
انسان جب سے اس دنیا میں آیا ہے اپنی تخلیقی
فطرت کے باعث اپنا طرز زندگی بہتر سے بہتر بنانے کے چکروں میں بہت سی تبدیلیاں لاتا
جا رہا ہے۔اور درحقیقت یہ انسان کی اپنی فطرت ہے جو اسے تغیر اور تبدیلی پر اکساتی
ہے مگر ہم مظاہر قدرت میں دیکھتے ہیں کہ ہر ہر شے پر ہی تغیر نوع کا فسوں ہے ہر ہر
شے بدل کر کچھ اور ہی بننے کے چکروں میں ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے "سکوں محال
ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات
اک تغیر کو ہے زمانے میں "
اور
درحقیقت اس تغیر کے باعث ہی زندگی کا حسن ہے ورنہ تو زندگی جمود کا شکار ہو جائے گی
اور نظام کائنات ہی رواں دواں نہیں رہ پائے گا۔اور انسان کی اپنی فطرت بھی ایک جیسی
چیزوں سے اکتا جاتی ہے اسی لیے اللّٰہ پاک نے انسان کی فطرت کے عین مطابق انسان میں
تخلیقی صلاحیتیں بھی رکھی ہیں جس کے باعث انسان مختلف چیزوں میں اپنے مزاج کے مطابق
تبدیلی لا سکتا ہے اور نئی نئی چیزیں جن کا پہلے سے وجود نہ ہو وہ بھی تخلیق کر سکتا
ہے اور آج کی بیش بہا مادی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات اور مختلف
آلات سے مزین انسان کی سہولتوں سے بھرپور زندگی انسان کی اسی تخلیقی اور تغیر پسند
سوچ کا نتیجہ ہے۔مگر بات یہ ہے کہ ہر ہر چیز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں جو مختلف چیزوں
پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔اسی لیے ہر چیز کا درست تجزیہ کرنے کے لیے اس کے
مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا بے حد اہم ہے۔انسان نے جو بھی ایجادات کی اور تبدیلیاں
لے کر آیا بلاشبہ اس نے انسان کی زندگی کو
سہل بنایا اور ان سب کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا انسان نے محض اپنی فطرت کی
تسکین کی خاطر یہ سب نہیں کیا بلکہ اس کا ایک اہم مقصد اپنا طرز زندگی بہتر بنانا بنیادی
ضروریات زندگی اور انسانی خواہشات کو پورا کرنا اور خود کو تحفظ اور سہولت دینا بھی
تھا۔اور چیزیں درست طور پر تب ہی کام کرتی ہیں جب کہ ان کو ایک خاص مقصد کے تحت شروع
کیا جائے اور اس مقصد کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھا جائے۔انسان اس دوڑ میں اتنی تیز
بھاگتا جا رہا ہے کہ وہ حقیقی نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر اندھا دھند اپنی خواہشات
کے پیچھے بھاگتا جا رہا ہے اور اس سب میں وہ بہت سے حقائق کو یکسر نظر انداز کر رہا
ہے۔مادے کی دوڑ اور نفسانی خواہشات کی تکمیل یہ سب اصل حقائق سے انسان کو عاری کر رہے
ہیں اور انسان اپنا دائمی نقصان ہوتا دیکھ نہیں پا رہا ہے اور زندگی کا مقصد محض وقتی
لذت کا حصول بنتا جا رہا ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی تو انسان کی مرہونِ منت ہے یہ انسان
پر منحصر ہے کہ اس نے اسے کس طرح استعمال کرنا
ہے۔انسان مادیت اور وقتی لذت کے چکروں میں اپنا ہی نقصان کرتا جا رہا ہے اپنے ہی ہاتھوں
اپنا سب کچھ تباہ کرتا جا رہا ہے اپنی صحت اپنے رشتے اپنے وسائل یہاں تک کہ اپنا مسکن
اور نہ صرف اتنا بلکہ اپنی آخرت بھی صرف اور صرف وقتی لذت کی خاطر۔آج سائنس و ٹیکنالوجی
میں جو ایجادات ہو رہی ہیں اور انسان ان کو جس طرح استعمال کر رہا ہے وہ انسان کو وقتی لذت تو فراہم
کر رہی ہیں مگر انسان اس کے بدلے اپنا سکون اپنی صحت اپنے
رشتے اور اپنا ایمان بھی خراب کر رہا ہے۔اور دنیا و آخرت دونوں کو خسارے میں ڈال رہا
ہے ۔اور درحقیقت ضرورت ہے حوش کے ناخن لینے کی ذرا دیر کو خود پر تدبر کرنے کی۔ہم نے
سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے اپنی صحت اپنا ماحول اپنا طرز زندگی بہتر بنانا تھا
مگر یہ کیا ترقی یافتہ ترین معاشروں میں بھی
ذہنی اور جسمانی امراض بڑھتے جا رہے ہیں جرم ظلم بے انصافی انسانی حقوق کی پامالی بدامنی
معاشروں میں بڑھتی جا رہی ہے ۔اور سب سے بڑھ
کر ہماری زمین جہاں صدیوں سے ہم جیسے انسان بستے آرہے ہیں وہ بھی تباہ ہوتی جارہی ہے
ہم انسان تبدیلی کے چکروں میں اپنا قدرتی ماحول تباہ کر رہے اور اس کا نقصان ہمیں ہو
رہا ہے ہماری صحت کی حالت دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے نئی نئی بیماریاں سر اٹھا رہی
ہیں اس قدر علم و آگاہی کے باوجود انسانوں میں بیماریاں اور تکلیفیں بڑھ رہی ہیں بالخصوص
ذہنی امراض میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ انسان کی نفس پرستی مادیت
پسندی اور وقتی لذت کا حصول ہے۔ایسے میں انسان بے دریغ اپنا قدرتی مسکن تباہ کر رہا
ہے۔جس سے اس کی صحت اور طرز زندگی بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہو رہی ہے۔اور بدلے میں
صرف وقتی لذت مل رہی ہے۔ماحولیاتی آلودگی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جو بے شمار ذہنی
اور جسمانی بیماریوں کو فروغ دے رہا ہے وسائل کم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ انسان ان کا
بے جا استعمال کر رہا ہے۔بالخصوص ہمارا ماحول بہت ذیادہ متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ
سے بہت سی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے انسان دردر اور تکلیف میں مبتلا ہے
اور نہ ہی اپنے روزمرہ کے معمولات بہتر طور پر استوار کر پا رہا ہے اور نہ اپنی آخرت
کی طرف توجہ دے پا رہا ہے بلاشبہ انسان اپنی کچھ زندگی خود کو وقتی آرام لمحاتی خوشی
دینے میں صرف کر رہا ہے اور کچھ زندگی ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے سکونی بےآ رامی اور تکالیف کو ختم کرنے میں۔کیسی عجیب
سی بات ہے انسان کی عقل پر کیسا پردہ پڑتا جا رہا ہے کہ لمحاتی لذت کے چکروں میں انسان
اپنا دائمی نفع نقصان دیکھ ہی نہیں پا رہا۔ایسی بھی کیا مدحوشی ہے انسان کچھ بھی دیکھ
نہیں پا رہا انسان اپنا وقت اپنی طاقت اپنی صلاحیتیں غرض اپنی پوری زندگی آرام و سکون
خوشی اطمینان اور دکھ تکلیفوں بیماریوں سے نجات پانے میں صرف کر رہا ہے اور اس میں
کوئی برائی نہیں یہ انسان کا حق ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسان محض اپنی صلاحیتیں اپنا
وقت اپنی توانائی وقتی فائدے کو حاصل کرنے میں کھپا رہا ہے اور باقی کا وقت تکلیف میں
گزار رہا ہے ۔پہلے انسان وقتی لذت کے لیے اپنی صحت گنواتا ہے پھر تکلیف میں مبتلا ہوتا
ہے پھر اسے واپس پانے کے لیے تکلیف اٹھاتا ہے۔مطلب کچھ افراد جن سہولیات کی تگ و دو
میں ہیں وہیں دوسری طرف جن کو یہ میسر ہے وہ ان سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے
چکر میں ہیں انسان پہلے خود کو آرام و سکون دینے کے لیے پیسہ کماتا ہے اور اس چکر میں
اپنا آرام و سکون اپنی صحت برباد کرتا ہے۔پھر صحت پانے میں وہی پیسہ لگا دیتا ہے۔بات
یہ ہے کہ پیسے کا حصول کوئی بری چاہ نہیں پیسہ زندگی کی ضرورت ہے ضرورت جتنا کمانے
میں حرج نہیں سہولت آرام آسائش خوشی لذت کی چاہ بھی جائز ہے انسان کا حق ہے مگر بات
یہ ہے کہ ان چکروں میں انسان نے اپنا نفع نقصان بھی تو دیکھنا ہے کہ ہو کیا رہا مل
کیا رہا ہے کھو کیا رہا ہے کتنا نفع ہوا کتنا نقصان ہوا؟؟یہ کیا بات ہوئی بلا دیوانوں
کی طرح خواہشات کی پیروی کی وقتی لذت حاصل کی اور پھر خسارہ ہی خسارہ تکلیفیں مصیبتیں
بیماریاں اور آخرت کی بربادی الگ ۔انسان عقل شعور فہم و فراست رکھتا ہے ضرورت ہے ذرا
تفکر تدبرکی قرآن پاک میں بارہا انسان کو دعوت فکر دی گئی ہے بار بار غور کرنے کے لیے
کہا گیا ہے۔اور درحقیقت غور کرنے والوں پر ہی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔اب ایسی بھی کیا
غفلت ہے سامنے ہی تو ہے سب پھر بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔ذرا اپنی اپنی مصروف ترین
زندگیوں میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر سوچنے کی ضرورت ہے۔آخر مقصدیت ہے کیا کیا ہم یہی
سب کچھ کرنے آئے ہیں کیا نفس پرستی کی بنا پر ہم اشرف المخلوقات ہیں کیا یہ زندگی اللّٰہ
رب العزت کی جانب سے آزمائش نہیں کیا زندگی مومن کے لیے قید خانہ نہیں کیا صرف لذت
خواہش ہی کامیابی ہے۔کیا بندگی کا یہی
تقاضہ ہے۔اتنی معمولی زندگی
ہے انسان کی کہ اسے لایعنی چاہتوں میں وقتی لذتوں میں ابدی خساروں
میں کھپا دے۔
************************
Comments
Post a Comment