Ghalatiyan Article by Tania Shehzad


السلام علیکم!
غلطیاں کوتاہیاں تو انسان کی سرشت میں شامل ہیں۔اللّٰہ پاک انسان کو بہتر طور پر جانتا ہے تب ہی تو وہ انسان کی غلطیوں کوتاہیوں سے در گزر فرماتا ہے اور معافی مانگ لینے پر بڑے سے بڑے گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔اسی طرح انسان کو بھی چاہیے کہ اگر اس سے غلطیاں کوتاہیاں ہوں تو اس کو بشریت کا تقاضہ سمجھتے ہوئے قبول کرے ہمارے ہاں غلطیوں کے معاملے میں عموماً دو قسم کے رویے پائے جاتے ہیں اول تو ہم سوچ۔لیتے ہیں کہ ہم نے کسی صورت کوئی غلطی نہیں کرنی سب کام پہلی ہی کوشش میں بالکل پرفیکٹ کرنے ہے اور کوئی کمی کوتاہی نہیں چھوڑنی یہ رویہ بالکل مثبت ہے ایسی سوچ۔رکھنے سے انسان اپنی طرف کی پوری کوشش کرتا ہے اور توجہ اور لگن کے ساتھ کام کرتا ہے ایسے میں غلطی کے امکان بھی نہایت کم ہی ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ انسان کا یہ اعتقاد اس میں مایوسیاں اور بے زاریاں بھی پیدا کر سکتا ہے پھر اس قسم کی سوچ کے ساتھ اگر انسان سے کوئی غلطی ہو جائے جو کہ فطری امر ہے تو انسان مایوس ناامید ہو جاتا ہے یا چڑ چڑے پن کا۔شکار ہو جاتا ہے پھر اسے غصہ آنے لگتا ہے اور ایسی صورت میں انسان اس کام سے ہی متنفر ہو جاتا ہے اور کوشش ترک کر دیتا ہے یا پھر بے زاری اور ناپسندیدگی کے ساتھ وہ کام کرتا ہے۔سو اس قسم کے نقصانات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ایک بات ضرور ذہن میں رکھے کہ پرفیکٹ کوئی بھی نہیں ہوتا اور۔جو کاملیت کے قریب ترین انسان حاصل کر سکتا ہے اس کے۔لیے پوری لگن اور محنت سے ضرور کوشش کرنی چاہیے مگر بشری کمزوریوں کے باعث ہر با صلاحیت انسان میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے سو اپنی طرف کی پوری کوشش کرنی۔چاہیے اور اگر غلطی ہو جائے تو اسے بشریت کا تقاضہ جانتے ہوئے خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے ساتھ ہی غلطی سے سبق سیکھ کر اسے دوبارہ نہ دوہرانے کا عظم کر کے ہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔دوسرا رویہ اپنی غلطیوں کے حوالے سے عموماً جو ہم میں پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم سوچ لیتے ہیں کہ ہم پرفیکٹ ہیں اور ہم سے۔تو کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی اس قسم کا رویہ سراسر منفی ہے کیونکہ اول تو اس سوچ کے ساتھ غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے چونکہ انسان سوچتا ہے کہ اس سے غلطی کا صدور ممکن ہی نہیں سو وہ اختیاط بھی ذیادہ نہیں کرتا اس لیے اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ اس سے غلطیاں کو تاہیاں ہو جائیں۔اور پھر اس قسم کی سوچ کے ساتھ جب ہم سے غلطی ہو جاتی ہے تو بجائے اسے تسلیم کرنے کے ہم اسے جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ممکن ہو تو اس کا الزام کسی بھی طرح کسی اور پر ڈال دیتے ہیں کیونکہ ہم پہلے ہی سوچ چکے ہوتے ہیں کہ ہم سے غلطی کوتاہی ممکن ہی نہیں۔سو اس طرح غلطی سرذد ہو جانے پر ہمارا رویہ خاصہ منفی ہو جاتا ہے ہم اپنی غلطیاں جھٹلا کر اس کا الزام کسی اور پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح اول تو ہمارے تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوتی ہے دوم غلطی کی اصلاح نہ ہونے کے باعث ہم نقصان اٹھاتے ہیں سو ہمیں اپنا اس قسم کا زاویہ نظر بھی بدلنے کی ضرورت ہے جب تک غلطی تسلیم نہیں کریں گے اس کی اصلاح بھی ممکن نہیں اللّٰہ پاک نے ہمیں انسان بنایا ہے سو بہتر ہے ہم خود کو انسان ہی سمجھیں اور انسانوں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں اس لیے اپنے اندر غلطی کی بھی گنجائش رکھیں اصلاح کی کاوش کرتے رہیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں ان سے سبق سیکھیں اور آگے بڑھیں اور ایک  اہم بات اپنی غلطیوں کو سب سے پہلے خود معاف کریں ان کا بوجھ اپنے سر پر لاد کر گومتے نہ رہیں ۔
ازقلم تانیہ شہزاد

Comments