Depression Article by Maryam Ahmad


me

ڈپریشن
از قلم مریم احمد
روز ڈپریشن کى گولى کھا کے سونے کى عادت ہوتى جا رہى تھى۔ تکلیف اِس حد تک تھى کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہى تھى۔ رات کو روتے روتے سونا اور دن کو روتے ہوئے جاگنا اب معمول بن چُکا تھا۔ سب گھر والے میرى اِس حالت سے بہت پریشان رہنے لگے تھے۔ محلے والے بھى باتیں کرنے لگ گۓ کہ اے ہاے کئى لڑکى پہ کوئى سایہ تو نہیں ہو گیا۔ اِس کى کیا حالت ہوتى جا رہى ہے۔ گھر والے پہلے پریشان تھے اور محلے والوں کى باتوں نے اُنہیں اور ڈرانا شروع کر دیا۔ امى ایک بابا کے پاس لے گئ کہ شاید مجھ پہ کسى چیز کا سایہ ہى نہ ہو مگر آج کل کے ڈھونگى بابا صرف پیسہ بٹورنا جانتے ہیں۔ امى کو اُلٹى سیدھى باتیں کر کے اور ڈرا دیا۔ کسى نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ میں کِن حالات سے گزر رہى ہوں۔ جتنے منہ اُتنى زبانیں والے قول پر مکمل عمل کیا جا رہا تھا۔
ایک دن ابو کو اُن کے دوست نے ایک سائیکاٹرسٹ کا بتایا اور مجھے اُن کے پاس لے کے جانے کو کہا۔ ابو نے گھر آ کر بات کى تو گھر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ وہ تو پاگلوں کے ڈاکڑ ہوتے ہیں ہمارى بچى پاگل تھوڑى ہے بس بابا جى نے کہا ہے سایہ ہے اِس پر ایک دو بار عمل کرنے سے دیکھنا بالکل بھالى چنگى ہو جاۓ گى۔
مگر مجھے کسى لمحے سکون نہیں آ رہا تھا۔ میرى بچپن کى سہیلى مجھے چھوڑ کے چلى گئ تھى۔ دل کى ہر بات اُسے بتا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا کرتى تھى۔ گھر کے دن بدن بڑھتے جھگڑے مجھے پاگل کر رہے تھے۔ میں سمجھانے کى کوشش کرتى تو اِس بات کے تعنے دیے جاتے کہ  چار جماعتیں کیا پڑھ گئ اب تم ہمیں سمجھاؤ گى۔ میں اپنا سا منہ لے کر وہاں سے چلى جاتى۔ امل کى بہت شدت سے یاد آتى تھى مگر وہ بھى چھوڑ گئ۔ میرے پاس ایسا کوئى نہیں بچا تھا جس سے اپنے دل کا بوجھ بانٹ لیتى۔
آنکھیں لال اور دماغ کى رگیں اُبھرنے لگ گئ تھى۔ جب کوئى اِس ڈپریشن سے فرار کا کوئى راستہ نظر نہ آیا تو میں نے موت کو لگانے کا فیصلہ کیا۔ آج کى رات میرى اِس ڈپریشن کے ساتھ آخرى رات ہو گى۔ رات کے کھانے پر میں نے سب کو حسرت بھرى نگاہوں سے دیکھا کہ شاید کوئى میرا بھى منتظر ہو مگر بے سود، سب اپنى اپنى زندگى میں اتنے گم تھے کہ کسى دوسرے کى پرواہ ہى نہیں تھى اور میرے لیۓ بھى سب بس سُرسرى سا ہى پریشان ہوۓ تھے۔ اِس سب کے بعد کوئى وجہ نہیں بچى تھى۔
رات مزید گہرى ہوتى جا رہى تھى پنکھے کے ساتھ لٹکائى گئ رسى کے سامنے کھڑے ہو کر یادوں کا ایک سمندر آنکھوں کے سامنے بہنے لگ گیا۔ اِس گھر میں گزرا میرا بچپن، امل اور میرى دوستى کى مثالیں، اکلوتے  بھائى کى اکلوتى بہن ہونے کا اعزاز، بھائى کے آنے کے بعد سب کى خود سے دورى کا احساس، دل ایک دم سے کُڑنے لگ گیا تھا۔  میرے لیے موت کو گلے لگانا ہى آخرى حل تھا۔
کیا ہوتا جو مجھے بھى کوئى ضرورى سمجھتا، میرے لیے کوئى جینے کى وجہ چھوڑتا، مجھ سے بھى میرى روز کى روٹین پوچھى جاتى، مجھے اِس بات کے احساس سے آزاد کرتا کے میں اکیلى نہیں ہوں۔ مگر میرے ہونے نہ ہونے سے کسى کو کوئى فرق نہیں پڑتا تھا۔ ایک اور پتہ درخت سے گرنے جا رہا تھا۔ ایک اور زندگى کا اختتام ہونے لگا تھا۔
پھر ہر طرف آذان کى آواز آنے لگتى ہے شاید تہجد کا وقت ہو گیا تھا۔ دل میں بے چینى بڑھنے لگى ایک خوف طارى ہونے لگ گیا زندگى تو اللَّہ کى امانت ہوتى ہے اِس میں خیانت کیسے کى جا سکتى ہے۔ آخرکار اُس نے مجھے اپنى طرف بُلا لیا تھا۔  میں کمرے سے نکل کر صحن میں آ گئى۔ آسمان کى طرف نظریں اُٹھا کہ دیکھا تو تاروں سے بھرى پُر سکون رات ٹھہرى ہوئى تھى۔ میں نے وضو کیا اور اوپر والےکے سامنے سجدہ کر دیا۔ نماز پڑھ کر میں نے اپنے سارے دُکھ اُس کے سامنے رکھ دیے۔ بوجھ ہلکا ہو چُکا تھا غم کے بادل جھٹنے لگ گۓ تھے اور پھر لمبے عرصے کى مصافت کے بعد مجھے پُر سکون نیند کى آغوش نے آ لیا تھا۔ میں اپنى روزمرہ کى زندگى میں واپس آنے لگ گئ کیونکہ اوپر والے نے مجھے تھام لیا تھا۔
ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے تاکہ وہ آپ سے اپنے دُکھ بانٹ سکے۔ اُن کى باتیں سُن کر آپکا کچھ نہیں جاۓ گا پر کسى کے لئے یہ جینے کى وجہ ضرور بن جاۓگا۔


Comments

  1. Osmm ,,, Fabulous yraa 😇😍😍😍🥰🥰🥰🥰👌👌👌👍👍👍❤️❤️❤️❤️best of luck

    ReplyDelete

Post a Comment