"بابا کی لاڈلی "
از قلم فاطمہ لیاقت
جان
سے پیارے لوگوں کو جان سے جاتے دیکھنا بہت ہی تکلیف دہ ہوا کرتا ہے۔۔۔وہ لوگ جن کے
ہونے سے ہمیں زندگی" زندگی" لگتی ہو۔۔۔جن سے ہم بے تحاشا محبت کرتے ہوں۔۔وہ
جب یہ دنیا چھوڑکر چلے جاتے ہیں تو بہت اکیلا پن محسوس ہوتا ہے۔۔۔زندگی میں ایک ایسا
خلا پیدا ہو جاتا ہے جو کبھی پر ہی نہیں ہوپاتا۔۔۔۔۔
•
بیٹیوں کےلئے ان کے والد کتنے خاص ہوتے ہیں۔۔ان کے دل میں
اپنے والد کےلئے کس قدر محبت ہوتی ہے یہ بیٹیاں ہی جانتی ہیں۔۔۔
•
جب وہ کام کر کے تھکے ہارے گھر لوٹ کر آتےہیں تو بیٹیاں
ہی ہوتی ہیں جو فورا پانی کا گلاس لئے پاس کھڑی ہو جایا کرتی ہیں۔۔۔
•
جب تک ان کے بابا انہیں خوش نظر آتےہیں وہ اپنے سب غم چھپا
کے اپنے والد کی خوشی میں مسکراتی رہتی ہیں۔۔۔۔۔
•
اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات بس دل میں سوچی جاتی ہیں اور مٹائی
جاتی ہیں کہ کہیں انکے بابا پہ بوجھ نہ پڑے۔۔۔۔ وہ اتنی محنت سے کما کے لاتے ہیں۔۔۔۔
یہاں
تک کہ ان کی خوشی کی خاطر وہ جہاں شادی کا کہیں سر جھکا لیتی ہیں۔۔۔تا کہ ان کی دعاؤں
کے سائے تلےرخصت ہوسکیں۔۔
اور
جب ان کے بابا اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو وہ بیٹیاں جو ساری زندگی اپنے کسی غم پہ
نہیں روئی ہوتیں کہ ان کے بابا پریشان نہ ہو جائیں۔۔۔تب بالکل ٹوٹ جاتی ہیں۔تب جب وہ
روتی ہیں تو ان سے چپ نہیں ہوا جاتا۔۔۔۔رشتے دار چپ کروارہے ہوتے ہیں حوصلہ دے رہےہوتے
ہیں پروہ اپنےآنسو روک ہی نہیں پارہی ہوتیں۔۔۔
موت
ایک برحق حقیقت ہے ہر انسان نے ایک دن مرنا ہے۔۔۔لیکن اس دنیا میں رہتے ہوئے ایک انسان
جو اچھے یا برے اعمال کرتا ہے۔۔وہ صرف اس کی زندگی پہ اثرنہیں کیاکرتے بلکہ آس پاس
کے لوگوں پہ بھی گہرا تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔
•
بیٹیاں اس لئے نہیں روتیں کہ ان کے بابا کیوں چلے گئے۔۔۔بلکہ
۔۔۔۔۔وہ اپنے بابا سے جڑی یادوں پہ روتی ہیں۔۔۔انکی شفقت انہیں رلاتی ہے۔۔۔۔ان کا وہ
پیار سے بیٹا بلانا ۔۔۔سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے خوش رہنے کی دعائیں دینا۔۔۔یہ
سب یادیں انہیں رلاتی ہیں۔۔۔۔
•
خود جتنےبھی مشکل حالات کا سامنا کرہے ہوں پر بیٹیوں کو
ان کا کہنا کہ آپ نے پریشان نہیں ہونا۔۔بہادر بننا ہے۔۔انکے ساتھ ہلکا پھلکا مزاق کرتے
رہنا کہ وہ سنجیدہ نہ رہیں۔۔اور پہلے کی طرح مسکرائیں۔۔۔یہ یادیں کیا بیٹیوں کے آنسو
روک سکتی ہیں۔۔۔؟؟
بیٹیوں
کے والد مر کے بھی مرا نہیں کرتے وہ انکی دعاؤں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔۔انہیں اپنی
ہر خوشی یاد کرواتی ہے کہ وہ ان کی ہر خوشی میں کیسے شریک ہوا کرتے تھے۔۔۔کہ چھوٹی
سی خوشی سینکڑوں گنا بھر جایا کرتی تھی۔۔۔
ان
کا ہر دکھ انہیں ان کے بابا کی یاد کرواتا ہے کہ وہ کیسے ان کے ایک آنسو پہ پریشان
ہو جایا کرتے تھے۔۔کیسے ہر مشکل پریشانی میں اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلایا کرتے تھے۔۔۔
پوری
دنیا ان کی بیٹیوں کے خلاف ہو جائے انہیں برا بھلا کہے پر وہ جانتے تھے کہ ان کی بیٹیاں
کبھی ایسا کام کر ہی نہیں سکتیں جن سے ان کا سر جھکے۔۔۔
توبعد
میں جب کوئی ان بیٹیوں پہ انگلی اٹھاتا ہے تو بیٹیوں کو بابا ضرور یاد آتے ہیں۔۔۔
بیٹیاں
بھول ہی نہیں سکتی کچھ بھی۔۔ان کے دل بہت نازک ہوتے ہیں۔۔وہ بہت پیار کرنے والی ہوتی
ہیں احساس کرنے والی ہوتی ہیں ۔۔۔۔سب کچھ بھول جائیں گی۔۔پر اپنی دعاؤں میں اپنے بابا
کو یاد رکھنا۔۔وہ۔۔۔کبھی نہیں بھولتیں۔۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔
میری
بس یہی التجا ہے کہ جن کے بابا زندہ ہیں۔۔آپ انہیں اپنے کسی بھی عمل سے دکھ مت پہنچانا۔۔وہ
جتنی بھی محنت کرتےہیں آپ ہی کے لئے کرتے ہیں۔۔۔آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے توآپ
بھی انہیں اکیلے ہونے کا کبھی احساس نہیں دلانا۔۔۔وہ آپ سے بہت بہت پیار کرتے ہیں۔۔بس
وہ اس کا کھل کے اظہار نہیں کرتے۔۔
ان
کے دل سے آپ کے لئے ہمیشہ صرف دعائیں نکلتی ہیں۔۔آپ کا ان سے محبت اور عزت سے بات کرنا
انہیں اپنے بوڑھے ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتا۔۔۔اس لئے کسی کی بھی خاطر ان کے سر
کو کبھی نہ جھکانا۔۔۔۔۔ وہ تو آپ کے لئے گھنے درخت کی مانند ہیں جو خود تپتی دھوپ خود
پہ برداشت کرلیتے ہیں پر آپ کو سایہ فراہم کرتے ہیں۔۔۔۔ان کی جتنی ہو سکے خدمت کریں
اپنی ذات سے جتنی خوشی انہیں دے سکتے ہیں دے دیں۔۔۔ان کی دعائیں لیں۔۔۔یقین کریں ان
کی دی گئی دعائیں رد نہیں جائیں گی۔۔
اللہ
ہم سب کواپنے والدین کی خدمت کرنے اور ان کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین
دعاؤں
کی طلبگار
فاطمہ
Comments
Post a Comment