عمل
عائشہ صدیقہ
بنی
نوع انسان لو اللہ تعالیٰ نے عقل دی دماغ دیا کہ اس کو استعمال کیا جاۓ-اس
سے فائدہ اٹھایا جاۓ-ہمارا
دماغ ہر وقت مصروف ہے-کبھی جسم کو سگنل دینے میں اور کبھی سوچنے میں - ہر وقت دماغ
کے اندر کسی نا کسی چیز کی سوچ چلتی رہتی-کبھی انسان اپنے موجودہ حالات کے بارے میں
سوچتا، کبھی اپنے بیوی بچوں کے بارے میں، کبھی اپنے مستقبل کے بارے میں -
جس
چیز کی سوچ ہمہ وقت زہن میں رہتی پھر انسان اس کی فکر میں مشغول ہو جاتا-اس کی پریشانی
اپنے زہن پر سوار کر لیتا اور ارادے کرنا شروع کرتا-جیسا کہ کوئی انسان اپنے مستقبل
کے بارے میں سوچتا ہے کہ وہ اچھا ہو تو وہ ارادہ کرتا کہ اب ایسا کرنا اور اپنے ارادے
پر عمل کرتے ہوئے انتھک محنت میں مشغول ہو جاتا-ان. سب میں اس کو اپنی زات کی پرواہ
بھول جاتی اور وہ صرف اپنے مقصد پر غور کرتا-
اپنے
مقصد کے حصول کی خاطر دین و دنیا بھلا بیٹھتا-انسان کبھی بھی اپنی سوچوں سے چھٹکار
حاصل نہیں کر سکتا - وہ جتنا اپنی سوچ سے بھاگے گا سوچ اتنی ہی تیزی سے اس کا پیچھا
کرے گی- اس کو پریشان رکھے گی-اسی پریشانی میں انسان پھر اپنے پیارے کے ساتھ بھی صحیح
طریقے سے نہیں رہ پاتا-اس کا موڈ چڑچڑا اور غصہ دلانا والا ہو جاتااور اس سب کا اثر
اس کے پورے خاندان پر پڑتا ہے - ہمارے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کو کہا جاتا جب
خاندان ہی پریشانی کا شکار ہو تو معاشرہ مسائل لا شکار ہو جاتا-
غرض
ایک سوچ سے شروع ہونے والا کام کہاں تک جہاں پہنچتا-سوچ سے بھاگنے کی بجائے اگر اس
کو کسی ٹریک پر لایا جاۓ-مستقبل
کا سوچنے کی بجاۓ
اگر انسان اپنے مالک کے بارے میں سوچے، اس کائنات پر غوروفکر کرے تب انسان کسی حد تک
پر سکون ہو جاتا-
انسان
جتنا جس چیز کے بارے میں سوچتا اتنا ہی اس کا پختہ ارادہ ہوتا اور جتنا پختہ ارادہ
ہو عمل اس قدر آسان ہو جاتا- اسی سوچ سے ہی اچھے اور برے اعمال کا آغاز ہوتا اور انسان
کا کردار بنتا-
اس
کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان اپنے خاندان اور اردگرد کے بارے میں نہ سوچے، سوچے بالکل
سوچے لیکن اگر تھوڑا سی سوچ اپنے آپ کی تخلیق پر سوچنے میں لگاۓ
تو ہو سکتا ہے اسی سوچ سے انسان کے ارادے بدل جائیں اور وہ کوئی نیک ارادہ کر لے جیسا
کہ کسی کی مدد کا ارادہ، اور اس ارادے پر عمل کرتے ہوۓ
اس کے عمل میں بہتری آجائے اور وہ ثواب کا حقدار بن جاۓ-
ایسے
انسان کو تو ڈبل ثواب ملے گا ایک اس کے ارادے کا ثواب اور دوسرا اس پر عمل کرنا کا
ثواب-
اگر
کبھی کسی وجہ سے وہ اپنی سوچ یا ارادے پر عمل نا بھی کر پاۓ
تب بھی کل قیامت کے روز اس سے اس وقت کے بارے میں سوال نہیں کیا جاۓ
گا-
اللہ
ہمیں عمل کی توفیق دے آمین -
دعاؤں
کی درخواست گزار
عائشہ
صدیقہ
**********************
Comments
Post a Comment