Aina ibrat article by Hiba Peerzada


*آئینہِ عبرت*
ہبہ پیرزادہ
زندگی کے ہنگامے جاری تھے ۔بازاروں میں وہی چہل پہل اور گہماگہمی تھی ہر کوئی اپنی زندگی جی رہا تھا سب راستے میں تھے مگر کسی کو منزل معلوم نہ تھی ۔اپنے اصل مقصد سے بے خبر ہو کر غلامی کی زندگی بسر کرنے والے مسلمان خود کو آزاد سمجھ رہے تھے
پھر اچانک سے ایک موت کی ایسی گرم ہوا چلی کہ جس سے دین کے علماء جانے لگے اور یوں اچانک سے علماء کرام کا چلے جانا بھی ہمیں غفلت کی نیند سے اجاگر نہیں کر رہا تھا کیونکہ سب *صُمُُ* ، *بُکْمُُ*،*عُمْیُُ   بن چکے تھے
یہ ناکام لوگ خود کو کامیاب سمجھتے ہوئے اصل کامیابی کو بھول چکے تھے دنیا کی زینت اور آسائش و آرائش اور مال و دولت نے ان کو ان کی اصل خوابگاہ بھلا دی تھی وہ دنیا کو حاصل کرنے اور دنیا کے اوپر معرفت حاصل کرنے کے علم حاصل کرکے سمجھ رہے تھے ہم عالم بن چکے ہیں ہمیں مزید علم کی ضرورت نہیں لیکن جس علم نے ان کو اور ان کی آخرت کو محفوظ کرنا تھا وہ علم ان سے چھپا رہ گیا تھا۔
اللہ تعالی انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازتے ہیں جب انسان ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا ہے تو اللہ   قدرے مسلمانوں نے ان کی قدر نہ کی تو  اللہ تعالی نے علماء کرام کو ایک ساتھ اپنے پاس بلا لیا
*سیدنا عبداللہ بن عمرؓو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !*
*بے شک اللہ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے اپنے بندوں کے (سینوں سے) کھینچ لے لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعے اٹھائے گا یہاں تک کہ وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے پس ان سے سوال کیا جائے تو بغیر علم کے فتوی دینگے پوری ویڈیو خود بھی گمراہ یوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے*
اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو آج کے مسلمانوں کا بھی یہی حال بن چکا ہے خود تو دین کے بارے جانکاری رکھتے نہیں اور اگر کبھی کوئی بات پوچھنی پڑ بھی جائے تو دین کی صحیح علماء کو  چھوڑ کے جاہلوں کے پاس جاتے ہیں
افسوس کے آج کے مسلمان دین کا مذاق اڑانے لگے اور علماء اکرام کی قدر نہ کرنے لگے بلکہ دین کا علم ان کے سامنے کوئی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا مگر جب کبھی کوئی بات ایسی آتی ہے تو علماء کرام کے پاس ہی جاتے ہیں جیسا کہ کبھی طلاق کا معاملہ نکاح پڑھانا نمازجنازہ اور حتیٰ کہ جماعت کروانی بھی نہیں آتی
آج کے دور میں سب پریشان نظر آتے ہیں اور سب کہتے ہیں ہماری دعائیں قبول نہیں کی جا رہی ہیں لیکن تزکیہ نفس نہیں کرتے کہ ہمارے سے کہا غلطیاں ہو رہی ہیں کیا ہم ایک احکام الہی کو پورا کر رہے ہیں کیا ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد  ادا کر رہے ہیں تو پھر جب ہم بھی احکام الہی کو ادا نہیں کر رہے تو آزمائشیں تو آنی ہیں
ہم ابھی بھی پلٹ سکتے ہیں ہم اپنی نیو جنریشن کو دنیا کے سامنے دھوکہ کی طرف متوجہ کرنے کے بجائے کو دین کی تعلیم دے کر آپ نے اسلام کا پرچم بلند کر سکتے ہیں
ہم تو امت مسلمہ جس کو  فضیلت دی گئی تھی دوسری اقوام پر گواہ بنایا گیا تھا افسوس کہ آج ہم بھٹک گئے
وقت ابھی بھی باقی ہے اے ناداں پلٹ آ اپنے رب کی طرف
*دنیا کی دولت اللہ انہیں بھی دیتا ہے جن کو وہ پسند نہیں کرتا مگر دین کی دولت صرف اس کو دیتا ہے جس کو محبوب رکھتا ہے*
ہم نے آج دنیا کی کسی محفل میں جانا ہو تو اپنے لباس کا بہت خیال رکھتے ہیں کہ سب سے عمدہ اور سب سے اچھا لباس آپ کا ہی ہوں اور سب سے منفرد لگ رہے ہوں تاکہ کوئی آپ کو مذاق کا نشانہ  نہ بنا سکے لیکن ہم بھول چکی ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے جس میں ہم نے ایک عظیم ترین ہستی کے سامنے پیش ہونا ہے تو خود سے سوال کریں کہ کیا ہم نے خود کو اس قابل بنایا ہے ؟ صرف اللہ کے محبوب کہلوانے والے اور عشق رسول کہنے سے ہمارا حق ادا نہیں ہو جاتا جب ہم کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں تو ہم پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہیں
*امر* *بالمعروف* *نہی* *عن* *المنکر* کا کام کرنا ہم پر فرض ہے لیکن یہ کام ہم سے بھی کر سکتے ہیں جب ہم اس قابل ہو جائیں کہ ہمیں دین کی تعلیم معلوم ہو اگر ہم اللہ کے محبوب بننا پسند کرتے ہیں تو ہمیں دین کی تعلیم حاصل کرنا ہوتی ہے کیونکہ
*رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !*
*اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں*
(اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم کو دین کو صحیح سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں آخرت کی سختیوں سے بچا لے ۔آمین ثم آمین )
🖊️ہبہ پیرزادہ
****************

Comments