السلام علیکم دوستوں اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللّه کے مرضی سے ہوتا ہے اگر وہ نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا اگر اچھا ہو رہا تو ہوسکتا وہ آپ سے خوش ہے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو آزما رہا ہے کہ آپ اپنے خوش حال زندگی میں خوشیاں دینے والے خدا کو کتنا یاد رکھتے ہیں اور اسکا شکر ادا کرتے ہیں تاکہ وہ آپ سے خوش ہو کر آپ کو اور عطا کر سکے یا پھر آپ اپنے خوشیوں میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ خوشیان دینے والے خدا کو ہی بھول جاتے ہیں
اسی طرح مصبتیں اور آفات کا معاملہ ہے یا تو آزمائش ہوتی ہے تاکہ اسکے بندے اسکی طرف رجوع کرے
یا پھر انسان کو کبھی کبھی اسکے اعمال کا کچھ بدلہ اس دنیا میں ہی اسے دے دیا جاتا ہے خیر یہ سب تو غیب کی باتیں ہیں کہ کس کے ساتھ کیا معاملہ ہیں ہمیں نہیں پتہ کیونکہ غیب کا صرف سوائے اللّه کے کسی کو نہیں پتہ نہ کسی انبیاں کو نہ اولیاں کو اور نہ علماء اور عام انسان کو۔
ظاہر سی بات ہے جب کسی نبی کو غیب کا علم نہیں تو باقی سب علماء اور عام انسان کو بھلا کیسے ہوسکتا ہےاور اگر کوئی دعویٰ بھی کرے تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے خدا کے عذاب کا مستحق ہے
اسی طرح جب کسی کو غیب کا علم نہیں تو بغیر کسی تحقیق کے کسی پر تہمت بھی نہیں لگانا چاہیے انسان کو کسی پر تہمت لگانے سے پہلے اپنا محاسبہ کر لینا چاہئے ہم جانتے ہیں کہ علماء وعالم کوئی فرشتہ نہیں ہیں اور نہ ہی وہ گناہوں سے معصوم ہیں مگر وہ خدا کے محبوب بندے ہوتے ہیں ان پر تو فرشتے بھی رشک کرتے ہیں مگر بشرط کہ وہ نہ صرف عالم بلکہ عامل بھی ہوکیوں کہ علم نہیں بلکہ عمل ضروری ہے
ارشاد نبوی ہے :
اللّه تعالیٰ تمہاری شکل و صورت اور جسم کو نہیں بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتے ہیں
اسی لئے اگر کوئی شخص علم تو جانتا ہو مگر عمل نہ کرے تو اسکا معاملہ اللّه کے ساتھ ہے اس کا خاتمہ کس حال میں ہوگا یہ اللّه کے سوا کسی کو نہیں پتہ اسی لئے ہمیں اسے برا بھلا نہیں کہنا چاہیے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا تہمت لگانا چاہیے
اسی طرح عالم کو جب ہم عمل بھی کرتے ہوئے دیکھے تو ہمیں اسکی عزت کرنی چاہئے کیوں کہ یہ عزت اسے خدا نے دی ہے ورنہ آپ خود سوچئے لاکھوں کروڑں کے تعداد میں سے خدا نے صرف اسے ہی اپنے دین کی خدمت کے لئے کیوں چُنا
ایک عالم بھی انسان ہی ہے چاہتا تو آپ کی طرح اپنے خواہشوں کی تکمیل کرتا اور ڈہیڑ سارا پیسا کما کر ایک برائینڈیڈ لائف جیتا مگر اسے تو خدا نے اپنے دین کے لئے چنا ہے تبھی وہ اس دنیا کو ترک کر کے دین کی خدمت کر رہا ہے اس لئے علماء بہت معزز انسان ہوتے ہیں
***
ہاں آج کل کے اس سازشی دنیا میں بہت کچھ ایسا ہے جو صرف آنکھو کا دھوکا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ بلکہ یوں کہا جائے کہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ شکل و صورت سے تو بظاہر بڑے عالم بزرگ و مفتی بنے پھرتے ہیں مگر ہوتے منافق ہیں (اللّه بچائے ان منافقوں سے) یہ لوگ دین کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ دیندار بن کر کھلے عام گناہ کرتے ہیں اور لوگوں کو ایسے فتویٰ دیتے ہیں جنکا ہمارے دین میں نام و نشان تک نہیں اور اپنی طرف سے بہت سی ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں جو کہ بدعت ہوتے ہیں ان کو تو انکے اعمال کا بدلہ اللّه ہی دیگا
لیکن میرا آپ لوگوں سے درخواست ہیں کہ ان منافقوں کی وجہ سے آپ علماء کے نام کو بدنام مت کرے ایسا کر کے آپ منافقوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ہوسکتا ہے قیامت کے دن خدا آپ سے اس اعمال کے بارے میں سوال کرے اسی لئے جب تک ہم انییں ظاہرًا عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تب تک ہمیں ان کی عزت کرنی چاہئے کیوں کہ باطن کا علم تو صرف اللّه کو ہی ہے اسی لئے کچھ لوگوں کی وجہ سے ہمیں علماء پر طعن و تشنی نہیں کرنی چاہئے ہمیں نہیں پتہ کہ اللّه کے نزدیک کون کتنا محبوب ہے اور کون کتنا مبغوض ہے۔
اگر علماء آپ کو کسی بات کا حکم دے اور وہ قرآن و حدیث کے موافق ہو تو آپ کو انکی بات بھی ماننی چاہئے کیوں کہ وہ آپ کو اپنا حکم نہیں بلکہ اللّه اور رسول کا حکم سناتے ہیں اگر نماز پڑھنے کا حکم دے اور روزہ حج کا حکم دے تو اس میں انکا کوئی غرض اور فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں صرف اور صرف آپ ہی کا فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کے لئے بھی وہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی عمل کر کے انکے ساتھ جنّت میں جائے
رہی بات ان کو زکٰوة اور صدقہ دینے کی تو یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ چاہے تو انکا تعاون کرے یا نہ کرے وہ آپ سے آکر بھیک نہیں مانگتے ہیں بلکہ وہ تو اللّه سے مانگتے ہیں اور اللّه آپ لوگوں کو ذریعہ بناتا ہے آپ لوگ انکو دے اگر آپ اپنا مال انکو نہیں دینا چاہتے تو نہ دے اللّه آپ کے بدلے کسی اور کو ذریعہ بنا دےگا مگر آپ پر زکٰوة فرض ہے آپ انکو نہیں تو کسی اور مستحق کو ضرور دیں۔
جس خدا نے آپ کو دیا ہے وہی خدا اپنے پیارے بندوں کو بھی دے سکتا ہے۔
ذرا سوچئے اگر وہ جس وقت کو مسجد میں عبادت کرنے اور قرآن پاک کی تعلیم دینے میں اور اذان دینے اور نماز پڑھانے میں گزار رہے ہیں وہ کیا یہ وقت آپ کی طرح محنت مزدوری کرنے میں اور اپنا رزک تلاش کرنے میں نہیں گزار سکتے تھے مگر وہ ایسا نہیں کرتے کیوں کہ اللّه نے انہیں اپنے دین کے لئے چُنا ہے۔
آج کل یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ علماء قرآن کی تعلیم پر اجرت لیتے ہیں مگر یہ سراسر غلط بات ہے کیوں کہ تعلیمِ قرآن کی اُجرت تو انسان اپنا جان قربان کردے پھر بھی ادا نہیں کر سکتا پہلے زمانے میں بیت المال سے عالماء کو اخراجات دیا جاتا تھا اس وجہ سے وہ تعلیم قرآن پر اُجرت نہیں لیتے تھے مگر آج کل کے زمانے میں سرکار علماء کو کوئی اخراجات نہیں دیتے ہیں اور آج کل تو لوگ زکٰوة و صدقہ علماء کو دینے میں بھی اتنا طعن و تشنی کرتے ہیں
اس وجہ سے علماء اگر اجرت لیتے بھی ہیں تو صرف اپنے ضرورت کے مطابق لیتے ہیں تاکہ انہیں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے ورنہ آپ خود سوچے آپ انہیں اجرت کتنا دیتے ہیں یا وہ آپ سے کتنا لیتے ہیں آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی صرف اتنا ہی لیتے ہیں جس سے نہ آپ کو تنگی ہو اور انکی ضرورت بھی پوری ہوجائے پھر آپ کیسے ان پر طعن و تشنی کرسکتے ہیں
آپ اگر خود کو مومن و مسلمان مانتے ہیں تو یاد رکھئے گا مومن کبھی بھی بغیر تحقیق کے کسی پر تہمت نہیں لگاتا اور نہ ہی طعن و تشنی کرتا ہے مسلمان ہونے کا حق ادا کرے اور متفق ہوکر ایک بن کر رہئیے جیسا کہ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا فرمان ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے دشمن کے سپرد کرتا ہے نہ اسے رسوا کرتا ہے اور نہ اسکی تحقیر کرتا ہے
اللّه ہم سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء کرے (آمین)
الفت رحمت
اسی طرح مصبتیں اور آفات کا معاملہ ہے یا تو آزمائش ہوتی ہے تاکہ اسکے بندے اسکی طرف رجوع کرے
یا پھر انسان کو کبھی کبھی اسکے اعمال کا کچھ بدلہ اس دنیا میں ہی اسے دے دیا جاتا ہے خیر یہ سب تو غیب کی باتیں ہیں کہ کس کے ساتھ کیا معاملہ ہیں ہمیں نہیں پتہ کیونکہ غیب کا صرف سوائے اللّه کے کسی کو نہیں پتہ نہ کسی انبیاں کو نہ اولیاں کو اور نہ علماء اور عام انسان کو۔
ظاہر سی بات ہے جب کسی نبی کو غیب کا علم نہیں تو باقی سب علماء اور عام انسان کو بھلا کیسے ہوسکتا ہےاور اگر کوئی دعویٰ بھی کرے تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے خدا کے عذاب کا مستحق ہے
اسی طرح جب کسی کو غیب کا علم نہیں تو بغیر کسی تحقیق کے کسی پر تہمت بھی نہیں لگانا چاہیے انسان کو کسی پر تہمت لگانے سے پہلے اپنا محاسبہ کر لینا چاہئے ہم جانتے ہیں کہ علماء وعالم کوئی فرشتہ نہیں ہیں اور نہ ہی وہ گناہوں سے معصوم ہیں مگر وہ خدا کے محبوب بندے ہوتے ہیں ان پر تو فرشتے بھی رشک کرتے ہیں مگر بشرط کہ وہ نہ صرف عالم بلکہ عامل بھی ہوکیوں کہ علم نہیں بلکہ عمل ضروری ہے
ارشاد نبوی ہے :
اللّه تعالیٰ تمہاری شکل و صورت اور جسم کو نہیں بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتے ہیں
اسی لئے اگر کوئی شخص علم تو جانتا ہو مگر عمل نہ کرے تو اسکا معاملہ اللّه کے ساتھ ہے اس کا خاتمہ کس حال میں ہوگا یہ اللّه کے سوا کسی کو نہیں پتہ اسی لئے ہمیں اسے برا بھلا نہیں کہنا چاہیے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا تہمت لگانا چاہیے
اسی طرح عالم کو جب ہم عمل بھی کرتے ہوئے دیکھے تو ہمیں اسکی عزت کرنی چاہئے کیوں کہ یہ عزت اسے خدا نے دی ہے ورنہ آپ خود سوچئے لاکھوں کروڑں کے تعداد میں سے خدا نے صرف اسے ہی اپنے دین کی خدمت کے لئے کیوں چُنا
ایک عالم بھی انسان ہی ہے چاہتا تو آپ کی طرح اپنے خواہشوں کی تکمیل کرتا اور ڈہیڑ سارا پیسا کما کر ایک برائینڈیڈ لائف جیتا مگر اسے تو خدا نے اپنے دین کے لئے چنا ہے تبھی وہ اس دنیا کو ترک کر کے دین کی خدمت کر رہا ہے اس لئے علماء بہت معزز انسان ہوتے ہیں
***
ہاں آج کل کے اس سازشی دنیا میں بہت کچھ ایسا ہے جو صرف آنکھو کا دھوکا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ بلکہ یوں کہا جائے کہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ شکل و صورت سے تو بظاہر بڑے عالم بزرگ و مفتی بنے پھرتے ہیں مگر ہوتے منافق ہیں (اللّه بچائے ان منافقوں سے) یہ لوگ دین کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ دیندار بن کر کھلے عام گناہ کرتے ہیں اور لوگوں کو ایسے فتویٰ دیتے ہیں جنکا ہمارے دین میں نام و نشان تک نہیں اور اپنی طرف سے بہت سی ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں جو کہ بدعت ہوتے ہیں ان کو تو انکے اعمال کا بدلہ اللّه ہی دیگا
لیکن میرا آپ لوگوں سے درخواست ہیں کہ ان منافقوں کی وجہ سے آپ علماء کے نام کو بدنام مت کرے ایسا کر کے آپ منافقوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ہوسکتا ہے قیامت کے دن خدا آپ سے اس اعمال کے بارے میں سوال کرے اسی لئے جب تک ہم انییں ظاہرًا عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تب تک ہمیں ان کی عزت کرنی چاہئے کیوں کہ باطن کا علم تو صرف اللّه کو ہی ہے اسی لئے کچھ لوگوں کی وجہ سے ہمیں علماء پر طعن و تشنی نہیں کرنی چاہئے ہمیں نہیں پتہ کہ اللّه کے نزدیک کون کتنا محبوب ہے اور کون کتنا مبغوض ہے۔
اگر علماء آپ کو کسی بات کا حکم دے اور وہ قرآن و حدیث کے موافق ہو تو آپ کو انکی بات بھی ماننی چاہئے کیوں کہ وہ آپ کو اپنا حکم نہیں بلکہ اللّه اور رسول کا حکم سناتے ہیں اگر نماز پڑھنے کا حکم دے اور روزہ حج کا حکم دے تو اس میں انکا کوئی غرض اور فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں صرف اور صرف آپ ہی کا فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کے لئے بھی وہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی عمل کر کے انکے ساتھ جنّت میں جائے
رہی بات ان کو زکٰوة اور صدقہ دینے کی تو یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ چاہے تو انکا تعاون کرے یا نہ کرے وہ آپ سے آکر بھیک نہیں مانگتے ہیں بلکہ وہ تو اللّه سے مانگتے ہیں اور اللّه آپ لوگوں کو ذریعہ بناتا ہے آپ لوگ انکو دے اگر آپ اپنا مال انکو نہیں دینا چاہتے تو نہ دے اللّه آپ کے بدلے کسی اور کو ذریعہ بنا دےگا مگر آپ پر زکٰوة فرض ہے آپ انکو نہیں تو کسی اور مستحق کو ضرور دیں۔
جس خدا نے آپ کو دیا ہے وہی خدا اپنے پیارے بندوں کو بھی دے سکتا ہے۔
ذرا سوچئے اگر وہ جس وقت کو مسجد میں عبادت کرنے اور قرآن پاک کی تعلیم دینے میں اور اذان دینے اور نماز پڑھانے میں گزار رہے ہیں وہ کیا یہ وقت آپ کی طرح محنت مزدوری کرنے میں اور اپنا رزک تلاش کرنے میں نہیں گزار سکتے تھے مگر وہ ایسا نہیں کرتے کیوں کہ اللّه نے انہیں اپنے دین کے لئے چُنا ہے۔
آج کل یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ علماء قرآن کی تعلیم پر اجرت لیتے ہیں مگر یہ سراسر غلط بات ہے کیوں کہ تعلیمِ قرآن کی اُجرت تو انسان اپنا جان قربان کردے پھر بھی ادا نہیں کر سکتا پہلے زمانے میں بیت المال سے عالماء کو اخراجات دیا جاتا تھا اس وجہ سے وہ تعلیم قرآن پر اُجرت نہیں لیتے تھے مگر آج کل کے زمانے میں سرکار علماء کو کوئی اخراجات نہیں دیتے ہیں اور آج کل تو لوگ زکٰوة و صدقہ علماء کو دینے میں بھی اتنا طعن و تشنی کرتے ہیں
اس وجہ سے علماء اگر اجرت لیتے بھی ہیں تو صرف اپنے ضرورت کے مطابق لیتے ہیں تاکہ انہیں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے ورنہ آپ خود سوچے آپ انہیں اجرت کتنا دیتے ہیں یا وہ آپ سے کتنا لیتے ہیں آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی صرف اتنا ہی لیتے ہیں جس سے نہ آپ کو تنگی ہو اور انکی ضرورت بھی پوری ہوجائے پھر آپ کیسے ان پر طعن و تشنی کرسکتے ہیں
آپ اگر خود کو مومن و مسلمان مانتے ہیں تو یاد رکھئے گا مومن کبھی بھی بغیر تحقیق کے کسی پر تہمت نہیں لگاتا اور نہ ہی طعن و تشنی کرتا ہے مسلمان ہونے کا حق ادا کرے اور متفق ہوکر ایک بن کر رہئیے جیسا کہ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا فرمان ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے دشمن کے سپرد کرتا ہے نہ اسے رسوا کرتا ہے اور نہ اسکی تحقیر کرتا ہے
اللّه ہم سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء کرے (آمین)
الفت رحمت
Comments
Post a Comment