اکیس رمضان المبارک شہادت مولا علی
.از قلم.مہرین فاطمہ مظفر گڑھ
امام علی رضی اللہ عنہ کی ولادت اسلامی کیلنڈر بننے سے تقریباً 23 سال پہلے ہوئی۔اپ علیہ السلام اسلامی تاریخ کے مطابق 13 رجب المرجب اور انگریزی تاریخ کے مطابق 29 ستمبر 599ء کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام حضرت ابو طالب اور والدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے آپ کو "ابو الحسن اور ابو تراب "کا لقب دیا۔ ( تاریخ الخلفاء ص113) ان کے علاؤہ آپ کو امیر المومنین، حیدر و حیدرہ۔اسد اللہ،کرار،باب مدینہ العلم ساقی کوثرکے القاب سے پکارہ جاتا ہے۔ عرب میں عام طور پر" سیدنا علی" اور عرب وعجم میں "امام علی"ہندو میں "مولا پاک"کہا جاتا ہے۔ جب اہل عرب حضرت محمد صلی اللہ وآلہ وسلّم کی جان کے دشمن بن گئے تو اللہ تعالیٰ کے رسول (ص) مختلف غاروں اور مختلف پہاڑوں کی چوٹیوں پر اللہ رب العزت کی عبادت کرتے تھے۔اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ اے رب العزت مجھے ایک ایسا دوست عطا کر جو ہر چیز پر غالب ہو۔جو میرا مددگار ہو جو مؤمنین کا امیر ہو اور جس کا نام سنتے ہی مشرکین پر عضب طاری ہو جائے۔ جب آپ کی ولادت کا وقت قریب آیا تو حضرت فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ میں اپنے لیے دعائے خیر مانگ رہی تھیں کہ اچانک کے مشرق جانب خانہ کعبہ کی دیواریں لرز اٹھیں اور ایک شگاف بن گیا اور آپ کی والدہ خانہ کعبہ کے اندر چلی گئیں۔خانہ کعبہ کے پاس کھڑے لوگوں نے خانہ کعبہ کے دروازے کو کھولنا چاہا لیکن ہزاروں کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے راز سے واقف نہ ہو سکے۔جب آپ کی ولادت کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی بیوی حوا،حضرت عیسیٰ کی ماں مریم حضرت موسیٰ کی والدہ اور حضرت آسیہ ان چاروں عظیم ہستیوں کو امام علی کے استقبال کے لئے بھیجا۔ حضرت امام علی نے خانہ کعبہ کی زمین پر سر رکھا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ عظیم کیا۔اور اللہ تعالیٰ کی عظمیت کی گواہی دی کہ کہ "بے شک اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میرے آقا محمد صلی اللہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ عن انس بن مالک قال:قال رسول اللہ صلی علی الملائکته و على على سبع سنين ولم يععد اولم يرتفع بشھاده ان لا اله الله من الارض الى الصمد الامنى ومن على ابن طالب " انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ فرشتے سات سال تک مجھ پر اور علی علیہ السلام پر درود بھیجتے رہے کیونکہ خدا کی وحدانیت کی گواہی زمین سے آسمان کی طرف سوائے میرے اور علی کے علاؤہ کسی نے نہ دی " 1۔(ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ جلد 7، صفحہ 335 باب فضائل علی علیہ السلام) 2۔( گنجی شافعی کتاب کفایتہ الطالب، باب 25،صفحہ 125) 3۔( سیوطی،کتاب تاریخ الخلفاء،صفحہ 166 باب ذکر علی ابن ابی طالب) 4۔( ابن عساکر تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی،جلد1،صفحہ 70،حدیث 166) 5 ۔( ابن مغازلی کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث 19 ،ص 8،اشاعت اول ،ص14) اور اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد صلی اللہ وآلہ وسلم کی نبوت کی گواہی دینے کے بعد حضرت فاطمہ نے آپ کو گود میں اٹھایا اور تین دن تک اللّٰہ تعالیٰ کے گھر مہمان رہنے کے بعد حضرت فاطمہ خانہ کعبہ سے باہر آئیں اور آپ کیا دیکھتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللّٰہ وآلہ وسلم آپ کے استقبال کیلئے خانہ کعبہ کے باہر کھڑے ہیں۔ تو حضرت فاطمہ نے امام علی کو آپ (ص) کو سونپ دیا ۔تو اللّٰہ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم نے آپ کے کانوں میں اذان دی۔تو آپ نےفوراً آنکھیں کھول دیں اسی طرح آپ نے دنیا میں سب سے پہلے رسول کائنات حضرت محمد صلی اللّٰہ وآلہ وسلّم کو دیکھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل اور میکائیل اور اسرافیل کو ہزاروں فرشتوں کے ساتھ زمین پر بھیجا اور کہا جاؤ میرے محبوب کو خوشخبری سناؤ کہ آپ مجھ سے مدد کی درخواست کرتے تھے کہ تو خوش ہو جاؤ میں نے اپنے گھر سے آپ کے بھائی کو آپ کا مددگار بھیجا ہے حضرت علی کی پیدائش کے 7 ویں دن عقیقہ کیا گیا۔اپ کے عقیقے میں 1000 اونٹ،1000 گائیں اور بکریاں ذبح کی گئیں۔اپ کی پرورش کا ذمہ رسول (ص) اللّٰہ کے رسول نے لیا۔ ایک دن حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول صلی اللّٰہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عقیدت مندی سے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلم آپ مجھے امام علی کی پیدائش کے بارے میں بتائیں تو اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ اے جابر آج تم نے میرے بعد پیدا ہونے والے عظیم انسان کا ذکر کیا ہے۔ "كنت أنا و علي بن أبى طالب نورا بين يدالله تعالى قبل أن يخلق آدم بأربعة آلاف عاما فلما خلق آدم قسم ذلك النور فجرء انا و جزء على." "حلقت آدم عليه السلام سے چار ہزار سال پہلے میں اور علی ابن طالب،خداوند متعال کے نزدیک نور کی صورت میں موجود تھے جس وقت خداوند عالم نے آدم علیہ السلام کے نور کو خلق کرنا چاہا تو اس نور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اس نور کا ایک حصہ میں اور ایک حصہ علی ابن طالب ہیں۔" (فضائل الصحابہ جلد2،ص 560،ح945) حضور صلی اللہ وآلہ وسلّم نے مزید فرمایا کہ:ا "أن الله تعالى جعل لاخى على فضائل لا تحصی کثرة فمن ذكر فضيلة من فضائله مقرابها غفر الله ما تقدم من ذنبه وما تاخر." " بے شک خداوند عالم نے میرے بھائی علی کے لیے بے شمار فضائل قرار دیئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں سے ایک فضیلت کو عقیدت کے ساتھ بیان کرے تو اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔" (المناقب ،الحوفق بن احمد الخوارزمی قم جامعة مدرسين ، باب چہارم،ص 32، ابن ساذان ماة منقبة مدرسة الامام المهدي (ع) ،ص 177، حديث 99) حضرت محمد صلی اللہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:"اعلم امتى لن يتعدى على بن أبى طالب عليه السلام" "میری امت میں سب سے زیادہ عالم شخص علی بن ابی طالب ہیں" (المناقب ص82، روایت 67،فرائد السمطین ،ج 1 ص 19، ینابیع المودة ، قندوزى 56،مناقب السبون، حدیث 70) جب آپ 40 سال کے عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا تو حضرت علی نے 9 سال کی عمر میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ عن أبي حمزة رجل من الأنصار،قال: سمعت زيد بن ارقم يقول:اؤل من أسلم علي.رواه الترمزي.و قال هذا حديث حسن صحيح. " ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہےاور کہا ہےکہ یہ حدیث صحیح ہے" (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح،ابواب مناقب على،5/642،الحديث رقم:3735،والطبراني في المعجم الكبير 11/406،الحدیث رقم 12151،والهشمي في المعجم الزوائد،9/102۔ في رواية عنه اؤل من أسلم مع رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه عليه وإله وسلم علي رضي اللَّه عنہ رواہ احمد۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ " حضور نبی کریم صلی اللہ وآلہ وسلّم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے علی رضی اللہ عنہ ہیں۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے" (أخرجه أحمد بن حنبل في مسند،4/367،والحاکم في المستدرک ،3/447 الحدیث رقم4663،وابن أبي شيبة في المصنف،6/371، الحدیث رقم:32106،، والطبراني في المعجم الكبير ،22/452، الحدیث رقم،1102۔ جب حضرت علی کی عمر 22 سال ہوئی ۔اسلامی تاریخ کے مطابق 26 رجب المرجب اور انگریزی تاریخ کے مطابق 10 مارچ 620ء کو آپ کے والد حضرت ابو طالب اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ ان کی وفات کے بعد جب قبیلہ قریش مکہ نے یہ دیکھا کہ محمد اور اس کے دین کو بچانے والا نہیں رہا تو قبیلہ قریش مکہ نے مسلمانوں پر دن رات ظلم و ستم کرنا شروع کردیا۔ مکہ کے مسلمان 2 سال قریش کے ظلم کو برداشت کرتے رہے ۔اسی طرح 622ء کو اللّٰہ کے حکم سے حضرت محمد صلی اللہ وآلہ وسلّم اور آپ (ص) کے چاہنے والے سب کچھ چھوڑ کر مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے۔ اسلامی تاریخ حضرت علی کی بہادری اور شجاعت سے بھری پڑی ہے۔اپ نے رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی غزوات میں شرکت کی اور اپنی بہادری کی داستانیں رقم کیں۔ہم کچھ غزوات کا ذکر کرتے ہیں جس میں حضرت علی نے شرکت کی اور دشمن اسلام کو شکست دی۔یہی وجہ ہے کہ آپ (اسداللہ،اللہ کے شیر) کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ ۔ہجرت کے 2 سال بعد 13 مارچ 624ء/17 رمضان المبارک،2ھ کنویں بدر کے قریب،70 میل(110 کلومیٹر) مدینہ کے جنوب مغرب میں ہوئی مسلمان 313 پیادہ فوج اور گھوڑ سوار فوج:2 گھوڑے اور 70 سے لیس تھے۔جبکہ کفار مکہ950 پیادہ فوجاور گھوڑ سوار فوج:100 گھوڑے اور 170 اونٹ سے لیس تھے ۔مسلمانوں کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ وآلہ وسلم اور کفار مکہ کی طرف سے ابو جہل افواج کی قیادت کر رہے تھے۔کفار مکہ نے اپنی 1000 افواج کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اور لوگوں نے پہلی بار رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلّم کے بھائی اور ابو طالب کے بیٹے اللہ کے شیر علی ابن طالب کو فرشتوں کے ساتھ مل کر کافروں کو واصل جہنم کرتے دیکھا تو مسلمانوں نے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کر دیں۔اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تاریخ اسلام کی پہلی فتح نصیب کی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس پہلی فتح کو قرآن کی سورۃ آل عمران میں اس طرح بیان فرمایا ہے: 1. ؤاذ غداؤت من أهلك تبؤى المومنين مقاعد للقتال ط والله سميع عليم. "اور اس وقت کو یاد کیجیۓ جب آپ صبح کو اپنے گھر سے نکلے دراں حالیکہ آپ مومنوں کو جنگ کے لیے مورچوں پر بیٹھا رہے تھے ط اللہ سننے والا اور جاننے والے ہے" 2.اذ همت طائفتن منكم أن تفشلا والله واليهما ط وعلى فليتوكل المؤمنين. "جب تم میں سے دو گروہ بزدلی پر تیار ہو گئے حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا ط اور مؤمنین کو اللّٰہ پر توکل رکھنا چاہیے۔" 3۔ولقد نصركم الله ببدر وانتم اذلته ط فاتقوا الله الكم تشكرون. "اور بے شک اللہ نے تمہاری بدر میں مدد کی حالانکہ تم کمزور تھے ط سو تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر ادا کرو۔" 4 ۔ إذ تقول المومنين الن يكفيكم أن يمدكم ربكم بثلثته آلاف من ملائكة منزلين. " اے (رسول مکرم) یاد کیجیۓ جب آپ مؤمنین سے فرما رہے تھے کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار نازل کیے ہوئے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے۔ 5۔بلى أن تصبروا و تتقو و يأتكم من فورھم ھذا يمددكم ربكم بخمسة الاف من الملائکة مسومين. " ہاں کیوں نہیں؛ اگر ثابت رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو جس آن دشمن تم پر چڑھائی کریں گے اسی آن اللہ پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد فرمانے لگے۔"( سورۃ آل عمران 121 تا125) اسی طرح اسلامی تاریخ کے مطابق 3ھ اور انگریزی تاریخ کے مطابق 23 مارچ 625ء میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ قریش مکہ نے 3000 کا لشکر تیار کیا اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا ۔ جب مسلمانوں نے کفارکی اتنی تعداد کو دیکھا تو وہاں سے بھاگنے لگے لیکن اللہ کا شیر اپنے رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرنے کے لیے اکیلا 3000 کے لشکر سے لڑتا رہا۔ جب کافروں نے دیکھا کہ علی ہمیں چیرتا پھاڑتا ہی جا رہا ہے تو کافر وہاں سے بھاگنے لگے تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کے ذریعے دوسری فتح نصیب کی۔ اسی طرح اس واقع کے ایک سال بعد اسلامی تاریخ کے مطابق 4ھ اور انگریزی تاریخ کے مطابق 626ء کو حضرت علی کی والدہ دنیا سے رحلت فرما گئیں۔وقت گزرتا رہا ۔قریش مکہ کے سرداروں نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ وآلہ وسلم کا دین پھیلتا ہی جا رہا ہے ہمارے ہی لوگ اس محمد کے دین کو قبول کر کے ہمیں ہی قتل کر دیں گے اگر ہم نے کچھ نہ کیا ۔اگر اب ہم نے محمد کے دین کی جڑ کو نہ کاٹا تو اس دین کی جڑیں ہمارے گھروں میں پہنچ جائے گا۔ اسی وجہ سے اسلامی تاریخ کے مطابق شوال۔ذی القعدہ 5ھ مارچ 627 ء کو مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی۔اس کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے۔اس کا مشورہ حضرت سلمان فارسی نے دیا تھا ۔اور تمام مسلمانوں نے اس کو کھودنے میں رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا۔ ابو سفیان نے 10 ہزار کا لشکر لے کر سارے مدینے کو گھیر لیا۔جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ہم چاروں طرف سے گھیر چکے ہیں۔تو مسلمان گھبرا گئے اور مسلمانوں پر عجیب قسم کا خوف طاری ہو چکا تھا کہ اتنے میں ایک شخص ابو سفیان کے لشکر میں سے باہر نکلا اور مسلمانوں کو للکار کر کہنے لگا۔" جھوٹے دین کے ماننے والوں ،ہے کوئی جو موت کی خواہش رکھتا ہوں."اس کی اس للکار میں اتنا خوف اور دہشت تھی کہ کسی بھی مسلمان میں ہمت تک نہ ہوئی کہ وہ اس کے سامنے نظر اٹھا کر دیکھ سکتا۔اتنے میں حضرت علی ابن طالب اپنے خیمے سے باہر آئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم سے اس کافر کو"في النار" کرنے کی اجازت لی اور میدان جنگ میں آگئے۔ تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم نے جب امام علی کو جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:"اے لوگوں یاد رکھنا آج کل امام کل کفر کے کے مقابلے میں جا رہا ہے۔" جب اس کافر نے دیکھا کہ میں اکیلا ہزاروں کے مقابلے اور میرے مقابلے میں ایک نوجوان تو غرور سے کہنے لگا" اے نوجوان تو کون ہے؟جا واپس لوٹ جا ورنہ تیری ٹانگیں کاٹ کے رکھ دوں گا۔"تو حضرت علی نے فرمایا کہ"اے دشمن خدا میں اللہ کا دوست،رسول اللہ کا بھائی،ابو طالب کا بیٹا،علی ابن طالب ہوں۔تجھے اپنی طاقت پر بڑا غرور ہے تو میں تجھے اللہ کے شیر کی طاقت دیکھاتا ہوں."اے دشمن خدا بھاگ جا اس سے پہلے میری ذوالفقار نیام سے پہلے آ جائے۔"یہ سن کر وہ کافر کہنے لگا کہ یہ نوجوان بچہ مجھے للکارے گا تو اس نے غصے میں آ کر حضرت علی پر اپنا پہلا وار کیا تو اللہ تعالیٰ کے شیر نے اپنی ذوالفقار نیام سے باہر نکالی اور اس ملعون کی دونوں ٹانگیں کاٹ کر زمین پر پھینک دی۔ اور مشرکین امام کے رعب و دبدبے اور دہشت کو دیکھ کر وہاں سے بھاگ گئے۔ اور اسی طرح اللّٰہ نے فرشتوں کے اور علی کے طفیل مسلمانوں کی مدد کی۔ ولما رأى المؤمنون الأحزاب قالو هذاما وعدنا الله و رسوله و صدق الله و رسوله وما زادھم الا ايمانا و تسليما. ،"اور جب اہل ایمان نے ان جنتوں کو دیکھا تو کہا: یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔اور اللہ کے رسول نے سچ ہی فرمایا تھا۔اور اس حالت نے ایمان اور جذبہ اطاعت کو اور بڑھا دیا ہے" (سنن نسا ئی2/56،مسند احمد) (نسائی 2/219) اس طرح وقت گزرتا رہا ایک سال بعد مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں کی اصلاح کرنے کے لیے اور قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لیے 1500 کے لشکر کو تیار کیا اور خیبر کے نزدیک خیمے لگا لیے۔محرم7 ھ مئی 628ء کو خیبر کے مقام پر جنگ ہوئی۔ مسلمان روز قلعہ خیبر کو فتح کرنے جاتے پر مرحب کے خوف سے بھاگ آتے ۔اسی طرح 40 ویں روز اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ"اے لوگوں کل میں الم اسے دوں گا جو قرار ہو گا ،جو اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم کو اپنا دوست رکھتا ہو گا،اور اللّٰہ اور اس کا رسول بھی اس کو اپنا دوست رکھتے ہوں گے" (بخآری) اس طرح اگلی صبح لوگوں نے دیکھا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم نے دین اسلام کا پرچم امام علی کو دیا اوراپ نے پھر اپنے آ قا حضرت محمد صلی اللہ وآلہ وسلّم کے حکم سے میدان جنگ میں پہنچے تو آپ نے مرحب کے بھائی کو پہلے ہی وار سے واصل جہنم کر دیا۔ جب مرحب کو اس بات کا علم ہوا کہ علی ابن طالب نے میرے بھائی کو قتل کر دیا ہے تو مرحب خیبر سے باہر نکلا اور زور زور سے کہنے لگا "اب مسلمانوں کی موت میرے ہاتھوں سے لکھی ہے اور زمین خیبر کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آج اس کے سینے پر مرحب آیا ہے۔ میری ماں نے میرا نام مرحب رکھا کہ جس سے موت ڈرتی ہے۔"تو امام علی نے فرمایا " زمین خیبر کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ "میری ماں نے میرا نام حیرر دکھا "اس کے بعد مرحب نے امام علی پر پہلا وار کیا تو اللہ کے شیر نے اس کے سر پر وارکیا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔اس طرح اللّٰہ نے مسلمانوں کو امام علی ابن طالب کے ذریعے فتح نصیب کی۔ (مسلم) اس کے بعد رسول صلی اللّٰہ وآلہ وسلّم کے حکم سے مسلمانوں نے غزوہ حنین اور غزوہ تبوک میں بھی حصہ لیا۔ان دونوں غزوات میں اللہ کے شیر،شیر خدا نے کئی کافروں کو جہنم واصل کیا۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے محبوب کی وہ دعا پوری کہ"کہ جو اللہ کے رسول نے مختلف غاروں ، مختلف پہاڑوں کی چوٹیوں پر پر بیٹھ کر اللّٰہ تعالیٰ سے مانگی تھی کہ میرے رب مجھے ایک ایسا مددگار عطا کر نقصان ہر چیز پر غالب ہو جو میرا مددگار ہو جو مؤمنین کا امیر ہو اور جس کا نام سنتے ہی مشرکین پر عضب طاری ہو جائے۔" فتح مکہ کے دو سال بعد اللہ تعالٰی کے رسول نے اللہ کے حکم سے ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ حج ادا کیا اور حج سے واپس آ تے وقت اسلامی تاریخ کے مطابق 24 ذوالقعدہ 10ھ اور انگریزی تاریخ کے مطابق 25 فروری 632ء کو جمعے کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم نے اللہ کے حکم سے وادی خم غدیر میں اپنے سارے صحابہ کرام کو اکھٹا اور پھر فرمایا:راوی نے اسے طرح روایت کیا ہے کہ عن البراء بن عازب رضي الله عنه،قال: كنا مع رسول الله صلى الل وإله وسلم في سفر فنزلنا بغدير خم فنودى فينا الصلاة جامعة و كسح لرسول الله صلى الله وإله وسلم تحت شجرتين فصلي الظهر و اخذ بيد علي، فقال: الستم تعلمون اني اولى بالمؤمنين من أنفسهم؟قالو:بلى قال: الستم تعلمون اني اولى بكل مؤمن من نفسه؟قالو:بلى قال : فأخذ بيده على فقال: من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم،!وال من والاه وعاد من عاداه.قال:فلقيه عمر رضى الله عنه بعد ذلك، فقال له: هنيئا يا ابي طالب! اصبحت و امسيت مولي كل مؤمن و مؤمنة. رواه أحمد و ابن أبي شيبة. ،"حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے ۔ہم نے وادی خم غدیر میں قیام کیا۔ وہاں نماز کے لیے اذان دی گئی اور حضور نبی کریم صلی اللہ وآلہ وسلم کے لیے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی ۔پس آپ صلی اللہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی اور حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا!کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کل مومنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟, انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔اپ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کل مومنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟انہوں نے عرض کیا:کیوں نہیں۔ راوی کہتا ہے کہ پھر آ پ صلی اللہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:"جس کا میں مولا اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ!تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھے"راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی سے ملاقات کی اور ان سے کہا: "اے ابن ابی طالب مبارک ہو، آپ صبح و شام (ہمیشہ کےلئے)ہر مومن اور مومنات کے مولا بن گئے ہیں ۔اس حدیث کو امام احمد ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے۔" (أخرجه أحمد بن حنبل مسند ،4/281، وابن أبي شيبة في المصنف،12/78،الحدىث رقم 12167) اللّٰہ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم ابھی اس دعا کو مانگ رہے تھے کہ اللہ نے اپنے محبوب کی اس دعا پر حضرت جبرائیل کو وحی لے کر نازل کی۔اور فرمایا کہ "اليوم أكملت لكم دينكم واثمعت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلم دینا" " آج ہم نے آپ کے لیے آپ کے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں اور آپ کے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا" (المائدہ۔3) حضرت علی نے حضرت عثمان کی وفات کے تیسرے دن 21 ذی الحجہ کو مسجد نبوی میں حضرت علی کے دست اقدس پر بیعت کی۔حضرت علی نے مسند خلافت پر قدم رکھا تو حضرت عثمان کی شہادت کی وجہ سے دارالخلافہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوگئے۔امت مسلمہ پر ہر طرف سے خطرناک حالات منڈلا رہے تھے۔اپ اسلامی اور نبوی تعلیمات کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ حضرت علی نے خلیفہ منتخب ہوتے ہی نظام خلافت کو خلافت راشدہ کے صراط مستقیم پر لانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش فرمائی۔ معاملات حکومت میں سب سے اہم عوامل (گورنر حکام بالا،افسران)کا تقرر اور پھر ان کے کام کی نگرانی کرنا۔ آپ نے اپنے دارالخلافت میں جنگلات پر مال گزاری عائد کی گئی صحرائے برس کی سالانہ آمدن چار ہزار درہم تھی۔اپ نے بیت المال کی نگرانی سخت کر دی خراج کی آمدن اور زکوٰۃ کی رقوم کے متعلق انتہائی سختی کے ساتھ احتساب کیا کرتے تھے تاخیر سے رقوم جمع کرانے پر مواخذہ کیا جاتا تھا۔ آپ کے خلافت سنبھالنے کے فوراً بعد ملک میں بدامنی اور انتشار رونما تھا لیکن آپ نے کمال تدبیر،انتہائی فہم و فراست اور معاملہ فہمی سے حالات پر کنٹرول کرنے کی کوشش فرمائی۔ آپ کے عہد میں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کے باعث جگہ جگہ شورشیں اور بغاوتیں پھیل گئیں۔زیادبن ربیعہ نے آپ کے حکم کے تحت انتہائی تدبر اور جنگی مہارت سے ان بغاوتوں کو ختم کیا۔اپ نے دینی اقدامات اور مذہبی خدمات پر بھی پوری توجہ دی ایران اور آرمینیا کے علاقوں میں نو مسلم مرتد ہو گئے آپ نے نہایت سختی سے ان کے خلاف اقدام کیا آپ کی کوششوں سے اکثر نو مسلم مرتد لوگ پھر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔اپ نے جرائم کی نوعیت کے اعتبار سے سزائیں تجویز فرمائیں سزا کے طور پر مجرموں کے مکانات مسمار کرا دیئے جاتے چوری کے علاؤہ بعض دیگر جرائم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جاتی۔ شراب نوشی کی سزا مقرر نہ تھی اس لیے اس کی سزا 80 کوڑے مقرر فرمائی۔ حضرت علی کے عہد خلافت میں بھی عدلیہ انتظامیہ سے علیحدہ تھی۔عدل و انصاف کے معاملہ میں کسی کے ساتھ نہ ظلم ہوتا تھا مسلمان،غیر مسلم،عیسائی، یہودی،شاہ وگدا،امیرو غریب سب برابر تھے کس کے حقوق سلب نہ کیے جاتے تھے۔ حضرت علی ذمیوں کے حقوق کا تحفظ کرتے تھے اور اپنے حکام کو بطور خاص ان کے ساتھ سلوک سے پیش آنے کی نصیحت فرماتے تھے۔ آپ منڈیوں اور بازاروں میں جاتے لوگوں کو لین دین کرتے دیکھتے ناپ تول کی نگرانی کرتے تھے۔ جب آپ مسند خلافت سنبھالی تو آپ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں: حضرت علی نے جب خلافت سنبھالی تو ان کے لیے اصل مسئلہ یہی تھا کہ وہ حضرت عثمان کے قتل کا بدلہ لیں لیکن قاتلوں کی شناخت مشکل تھی ۔حضرت علی بھی قصاص عثمان چاہتے تھے لیکن وہ سمجھتے تھے کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں۔لہذا مصلحتا وہ اس سلسلے میں دیر کر رہے تھے تاکہ واضح طور پر قاتلین عثمان کو پہچان کر قصاص عثمان وصول کیا جائے۔وہ اس فرض سے غافل نہیں تھے لیکن بعض صحابہ کرام قصاص عثمان کے سلسلے میں جذباتی ہو رہے تھے اور قصاص عثمان کا مطالبہ شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ حضرت علی کو جو مشکلات پیش آئیں ان میں سے ایک بڑی مشکل جنگ جمل کی صورت میں سامنے آئی۔جب پہلی مرتبہ مسلمانوں کی تلواریں مسلمانوں ہی کے خلاف اٹھیں۔یہ جنگ صحابہ کرام کے درمیان غلط فہمی کی بناء پر ہوئی۔ جب شہادت عثمان کا واقعہ پیش آیا۔حضرت عائشہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ میں تھیں آپ کو وہیں علم ہوا۔جب آپ مدینہ جانے لگیں تو حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور دوسرے صحابہ کرام حضرت عائشہ کے گرد جمع ہو گئے اور انہوں نے اصرار کیا کہ آپ مدینے میں امن واصلاح اور قصاص عثمان لینے کے لیے کوشش کریں چنانچہ آپ مدینہ جانے کے لیے تیار ہو گئیں۔جب آپ روانہ ہونے لگیں تو 3000 ہزار صحابہ کرام کا لشکر آپ کے ساتھ تھا۔اپ کے اس لشکر نے بصرہ پر قیام کیا۔ حضرت علی کو علم ہوا تو آپ بھی فوج لے کر بصرہ پہنچے۔وہاں پہنچ کر حضرت علی نے قعقاع بن عمرو کو حضرت عائشہ کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر سے بھی ملاقات کی تو انہوں نے مدینے میں امن و اصلاح اور قصاص عثمان لینا اپنا مقصد بنایا۔حضرت قعقاع بن عمرو نے سمجھایا کہ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب سب لوگ خلیفہ کی اطاعت کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیں تاکہ فضا پرامن ہو۔سب لوگ اس بات پر متفق ہوں گئے اور صلح کی بات چیت شروع ہو گئی.لیکن علوی فوج میں شامل باغی گروہ امن نہیں چاہتا تھا۔چنانچہ انہوں نے اچانک حضرت عائشہ کی فوج پر حملہ کر دیا۔حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے سمجھا کہ حضرت علی کی فوج نے بدعہدی کی ہے۔حضرت علی کو بتایا گیا کہ حضرت عائشہ کے لشکر نے پہل کی ہے۔یوں پہلی بار مسلمان باہم لڑے جو کہ تاریخ کا افسوسناک واقعہ ہے۔ جنگ جمل ہر لحاظ سے مسلمانوں کے لئے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوئی۔ جنگ صفین 37ھ حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان ہوئی یہ جنگ صفین کے مقام پر ہوئی اس لئے جنگ صفین کہلائی۔حضرت امیر معاویہ قصاص عثمان کا مطالبہ لے کر آگے بڑھ ۔ ۔نیز آپ کو حضرت علی نے گورنری سے معزول کر دیا تھا۔اپ نے حضرت علی کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔اس وجہ سے صفین کے مقام پر جنگ ہوئی اس سیاست میں انہوں نے قصاص عثمان کی آڑ لی۔دونوں افواج میں امت کے خیرخواہ لوگوں کی کمی نہ تھی۔جو یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان خون ریزی نہ ہو ایسے صحابہ کرام نے دونوں طرف صلح کرانے کی ہر ممکن کوشش کی یہی وجہ تھی کہ یہ لڑائی تین ماہ تک رہی لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور صرف ایک بات پر اتفاق ہو سکا کہ محرم الحرام تک جنگ ملتوی کر دی جائے۔ یکم صفر 37ھ کو بالآخر جنگ شروع ہوئی ابتداء میں معمولی مقابلے ہوتے رہے لیکن شعبان میں یہ لڑائی شدت اختیار کر گئی جب فریقین پوری قوت سے صف آراء ہوئے اور خون ریزی کئی ماہ تک جاری رہی جس میں دونوں طرف ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ دونوں افواج کے درمیان فیصلہ ہوا کہ دونوں طرف سے نمائندے مقرر کریں گے ۔ماہ رمضان 37ھ کو نمائندے جمع ہوئے اور باہمی گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں کو معزول کر دیا اور مسلمانوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے نیا خلیفہ منتخب کریں۔اس جنگ میں فیصلہ کن لڑائی ثابت نہ ہوئی۔کیونکہ ۔امیر معاویہ نے اپنی چالاکی کے اپنی شکست کے نقشے کو بدل کر رکھ دیا۔پہلی دفعہ اسلامی ریاست دو حکمرانوں کے درمیان بٹ گئی اور مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو انتہائی دھچکہ لگا۔اس جنگ میں امت مزید گروہ بندی میں تقسیم ہو گئی اور طبقہ خوارج ظہور پذیر ہوا۔جنہوں نے آہستہ آہستہ اپنے عقائد بھی علیحدہ گھڑ لئے۔خارجیوں نے حضرت علی سے علیحدگی کے بعد اپنا مسکن"خرورا"بستی کو بنایا اسلئے ان کا "خروریہ"پڑ گیا۔ان کو خارجی اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے حضرت علی کے خلاف خروج کیا تھا۔خوارج کے 20 فرقے بتائیں گئے ہیں ان کے چار فرقے مشہور ہیں:(ازارقہ)،(2)قرضہ نجرات،(3)گروہ اباضیہ)،(4)گروہ صغریہ۔ 19 رمضان کو جب آپ مسجد کوفہ میں گئے،سوئے ہوئے لوگوں کو اٹھایا ان میں ان کا قاتل عبد الرحمٰن ابن ملجم بھی تھا۔جیسے ہی آپ نے اسکو دیکھا اور کہا فجر کے وقت اللہ کے گھر میں سونا اللہ کو پسند نہیں،اٹھو اور اپنے فعل کو انجام دو یہ کہہ کر آپ محراب کی طرف روانہ ہو گئے۔اور اذان دینے لگ گئے۔امام بعد اذان نماز کے لیے مصلے پر پہنچے۔قیام کیا،رکوع اور جیسے ہی سجدہ کیا تو عبد الرحمٰن ابن ملجم جو اپنے ساتھ زہر آلود تلوار ساتھ لایا تھا جیسے ہی آپ سجدے میں گئے تو اس ملعون نے سجدے کی حالت میں آپ پر وار کر دیا ۔اپ نے اپنے چاہنے والوں کو سختی سے منع فرمایا کہ " کوئی بھی میرے قاتل کے ساتھ بد سلوکی نہ کرے۔ اگر میں اس قرب کی وجہ سے شہید ہو جاؤں تو اس کو بھی ایک ضرب لگانا اگر یہ ایک ضرب سے مر جائے تو میرے قاتل کی لاش کی بے حرمتی نہ کرنا اسکے غسل و کفن کا اہتمام کرنا ،اور اس کے جسم کے اعضاء نہ کاٹنا کیونکہ میں للہ کے رسول صلی اللہ وآلہ وسلّم ایسے انسان پر لعنت پر لعنت کرتاہے جو مرے ہوئے انسان کے جسم کے اعضاء کاٹ کر اس کی توہین کرتے گا۔"آپ بستر مرگ پر اللہ کا ذکر کرتے رہے ۔جیسے 19 کا دن گزرا20 رمضان کی رات آئی ۔ آپ نے فرمایا اب میرے حجرے میں کوئی نہ آئے کیونکہ اس دنیا کے جنات میری زیارت کو آنے ہیں۔20 رمضان کا دن طلوع ہوا تو آپ نے فرمایا حسن جاؤ میرے چاہنے والوں کو بلا کر لاؤ فرمایا پوچھو "آج بھی علی تمہارے ساتھ ہے میں زمین کے راستوں کی طرح آسمانوں کے رستے جانتا ہوں پوچھ لو جو کیونکہ جب تم مجھے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاؤ گے تو پچھتاؤ گے۔" فرمایا حسن پورے خاندان کو جمع کرو۔اب اس خاندان کا وارث حسن ابن علی ہے جو حسن کہے وہ سب تم ماننا اور امام حسن سے فرمایا!اپنے نانا کی صلح حدیبیہ کو یاد رکھنا جہاں تک ہوسکے انسانوں میں امن اور محبت کا خیال رکھنا.پھر فرمایا حسن حسین میرے جنازے کے بعد میری قبر کا کسی کو نہ بتانا۔ میرا جنازہ اونٹنی پر رکھنا ۔جہاں اونٹنی رکے میری تدفین کرنا۔یہ بات کسی کو نہ بتانا جب تک اللّٰہ خود ظاہر نہ کرے۔کیونکہ اسلام کے دفاع اور اسلام کے ارکان کو مضبوط کرنے کے لیے حضرت علی نے کفر کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں قریش اور کافر قبائل کے بے شمار سرداروں کو واصل جہنم کیا۔ لیکن جہاں حضرت علی کی شجاعت نے اسلام کو کافروں اور مشرکین کی سازشوں سے محفوظ کیا۔ وہاں دوسری طرف کافروں کے دلوں میں بغض و حسد سے بھر دیا اور اسی بغض اور عناد کی وجہ سے مقتولین کے ورثاء ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حضرت علی کے دشمن بن گئے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کی جانب سے حضرت علی سے بغض رکھتے تھے اس کی وجہ سے اہل بیت اور حضرت علی کی اولاد پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے واقعات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں نہیں تھے اسی سبب سے حضرت علی نے اپنی قبر کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کا کہا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد حکومت بنوامیہ کے لوگ کی ہو گی اور یہ لوگ اپنے دلوں کی بھڑکتی ہوئی انتقال کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میری میت کو قبر سے نکال کر لاشے کی بے حرمتی کریں گے۔لہذا ان لوگوں کے شر سے بچنے کے لیے اپنی قبر کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا. (کتاب فرحة ص 25) آپ 21 رمضان 40ھ بمطابق،27 جنوری کو کوفہ عراق میں وفات پائی۔آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے جنازے میں کسی کو شرکت نہ کرنے دوں گئی ۔ایک نورانی اونٹنی پر آپ کو سوار کیا گیا۔جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام بھی اونٹنی کے پیچھے چل رہے تھے کہ کوفے سے تھوڑا آ گے ایک چمکیلے پتھر پر وہ رک گئی۔اس پتھر کو ہٹایا گیا وہاں ایک قبر پہلے سے بنی ہوئی تھی اور اس پر لکھا ہوا تھاکہ یہ قبر اللہ کے نبی نوح نجیب اللہ نے بنائی ہے اللہ کے اس ولی اس علی کے لیے جس کے صدقے میری کشتی کو نجات ملی۔
Comments
Post a Comment