U turn article by Romana Gondal




یو ٹرن

انسان غصے اور جوش میں جہاں انسان بڑے بڑے گناہ کرنے سے نہیں چوکتا وہی بڑے سے بڑی نیکی بھی کر جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ کروا لینے والی کیفیت ذ یادہ تر وقتی ہوتی ہے لیکن بہت طاقتور ہوتی ہے اور پھر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں مستقل مزاجی سے قیام نہیں رہا جاتا ۔ آخرت میں ایک پل صراط ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا ہے جہاں نیک اور بد کا فیصلہ ہو جائے گا کیونکہ اس سے نیک ہی گزر سکیں اور گناہگار کٹ کٹ کے دوزخ میں جا گریں گئے ۔ لیکن دیکھا جائے تو اس زندگی میں انسان ہر لمحہ پل صراط پر ہوتا ہے۔ اس کے اعمال کبھی اسے بہت آسان بنا دیتے ہیں اور کبھی وہ بہت نیچے گر جاتا ہے۔ لیکن یہاں اسے سمجھ نہیںآتی ۔ جب اپنے اعمال کی وجہ سے مشکل میں پڑ جاتا ہے تو واویلا کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ کبھی اپنی مشکلات کو اپنی کمائی نہیں سمجھتا ۔ لیکن آخرت میں پل صراط سے جب انسان کٹ کر گرے گا تو اسے اپنی ہر بات ، ہر عمل کی سمجھ آ جائے گی، تب وہ کوئی سوال نہیں کرے گا۔ اسے سمجھ آ جائے گی کہ زندگی کے سفر میں اس نے جو راستہ چنا تھا وہ اسی منزل کی طرف آ تا تھا۔
 بہت کم ایسے خوش قسمت انسان ہوتے ہیں جو پیدائش سے موت تک مستقل مزاجی سے سیدھے راستے پہ رہتے ہیں بعض لوگ یہ سفر نیکی سے شروع کرتے ہیں اور بدی پہ ختم ہوجاتا ہے ۔ بعض لوگ بدی سے شروع کرتے ہیں لیکن نیکی پہ ختم ہوتا ہے ۔انسان ایک راستے پہ چلتے چلتے ایک دم یو ٹرن لے لیتا ہے۔ یہ ٹرن انسان نیکی سے بدی کی طرف لے یا بدی سے نیکی کی طرف ، اسے ایک بار اپنا لائف سٹائل ، دوست بدلنے پڑتے ہیں لیکن اس دنیا میں گناہ کا سفر مشکل نہیں لگتا لیکن نیکی کی طرف جانے کے لیے یہ یو ٹرن ہی سب سے مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ انسان کو اپنی غلطی ماننی پڑتی ہے ، جو انا کرنے نہیں دیتی۔ اپنی تفریحی ، انا اور بعض اوقات بہت سے دوست رشتے دار بھی دور بھاگنے لگتے ہیں ۔ اس لیے اللہ ان لوگوں کی بہت قدر کرتے ہیں جو برائی کا راستہ چھوڑ کے اچھائی کی طرف آ جاتے ہیں ۔
لیکن انسان جو ان سارے امتحانوں سے گزر جاتا ہے وہ ایک نئے امتحان میں پڑ جاتا ہے اپنی نیکی اور پارسائی کے غرور میں اور یہ شیطان کا سب سے خطر ناک چال ہے ۔ جس میں بڑے بڑے عالم فاضل ، بڑے متقی پرہیز گار پھنس جاتے ہیں ۔ اور ابلیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس لیے کبھی غرور نہ کریں کہ ہم برائی نہیں کرتے یا ہم چھوڑ کے کتنے اوپر آ گئے ہیں کیونکہ اچھائی اوہ نیکی کا سفر بلندی پہ چڑھنے جیسا ہوتا ہے ۔ جس پہ پیچھے جانے کے لیے نہ وقت چاہیے ہوتا ہے اور نہ انرجی ۔ بس ذرا سا پیچھے مڑ کے دیکھنے کی غلطی کی دیر ہوتی ہے ۔ انسان ایک دم چکرا کے گر پڑتا ہے ۔ نیکی کے سفر مقں ةم جتنے مرضی اونچائی پہ چلیں جائیں برائیوں کی کشش انسان کو پستیوں میں گرا سکتی ہے۔ اس لیے بہت احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ذرا سی بے دھیانی سے پھسل سکتے ہیں ۔ کیونکہ اوپر سے نیچے گر نے میں چوٹ لگ جایا کرتی ہے اور وہ چوٹ اتنی خطر ناک ہوتی ہے کہ انسان دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوجاتا ہے ۔ اس لیے بہت احتیاط سے آگے کو قدم بڑھاتے رہیں کیونکہ انسان اس زندگی میں کسی بھی مقام پہ یہ گارنٹی نہیں دے سکتا کہ آپ نیک ہی رہیں گئے۔
مشتاق احمد یوسفی کچھ اس انداز میں لکھتے ہیںکہ
 ہمارے ہاں با عزت طریقے سے مرنا حادثہ نہیں ، ہنر ہے جس کے لیے عمر بھر ریاض کرنا پڑتا ہے ۔ اور اگر اللہ تو فیق نہ دے تو یہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ۔


رومانہ گوندل

Comments