خوشیاں ناپیدہوچکی ہے
بچہ روزسکول سے واپس آکرساری بات ماں کو بتاتاہےپورےدن کےقصےسناتاہے۔۔آج
ہم نےکلاس بنک کے,یہ شرارت کی وہ مستی کی اس بات پہ خوب ہنسےفلاں حرکت پہ خوب قہقےلگائےوغیرہ
وغیرہ......لیکن ہربارماں اسے سمجھاتی ہے کہ یہ غلط ہےوہ صحیح ہے_یہ اچھاہےوہ براہے
۔۔۔یہ ثواب ہے وہ گناہ ہے کیونکہ وہ اسے اچھی بری بات وقت پرسمجھاکراسکی اچھی تربیت
کرناچاہتی ہے۔"وہ صحیح وقت پر صحیح بات سمجھاتی ہے۔۔وہ بلکل نہیں چاہتی اسکابیٹااچھےگریڈ
بیسٹ جاب جیسی چکی میں پس کر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے اس لئے وہابھی سےاسکےچھوٹے
چھوٹے کندھوں پہ بھاری بھرکم تربیت کا بوجھ لادھ رہی ہے _لیکن اس سے کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟؟
بچے نےپہلےکوشش کی بوجھ سنبھالنے کی مگرجب وزن معصوم زہن
اور نازک کندھوں سےبڑھنےلگاتووہ اس نےاس تربیت کے تھیلے میں سے کچھ چیزیں نکالناشروع
کر دیا۔۔۔یایوں کہہ لیں اس نے ہر بات بتاناچھوڑدی۔۔پھر وقت کے ساتھ جیسے جیسے کانوں
میں مختلف آوازوں کا شوربرھتاگیا۔۔۔ان میں سےچند آوازوں نےاسےبتایاکی"ہروہ کام
غلط ہاگناہ ہوتاہےجسے بتاتے ہوئے شرم محسوس ہو""۔۔۔ہوں بات توبلکل ٹھیک تھی
لیکن اس درست بات کےلئے اس ننھے دماغ کا انتخاب درست نہ تھا_کیونکہ جہاں اسکی خوشیاں
منانے٫خوشیوں میں خوش ہونا تھا جہاں اسے خوشیاں بانٹناسکھاناتھا وہاں ہم نے اسے صحیح
غلط ثواب گناہ میں الجھے دماغ کو مزید الجھا دیا یوں اس نے چھوٹی چھوٹی خوشیاں منانا
بھی چھوڑ دیا اور اسکا نتیجہ یہ نکلاکےاس نے حقیقی معنوں میں مسکرانا٫خوش ہونابھی چھوڑدیا_
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ
کیا یہ اسکی ماں کی غلطی تھی جو اسے اچھائی برائی کی تمیز سکھارہی تھی یااسکی اچھی
تربیت کے چکر میں اسکی مسکراہٹ چھین لی۔۔۔۔؟؟؟؟؟
نہیں بلکل نہیں٫ ماں غلط نہیں تھی بلکہ وہ تو صحیح وقت پر
صحیح بات سمجھا رہی تھی مگر۔۔۔۔!!
تضاد صرف یہ تھاکی وہ صحیح وقت اس بات کو سمجھانے کے لیے
صحیح نہیں تھا یایوں کہہ لیں وہ ذسے سمجھانےکے لیے اسکےکان تک اپنا منہ نہیں بلکہ اسکا
کان اپنے منہ تک کھینچ رہی تھی-جب بچے کوبولناہوتاتھاتب وہ اسے سنانے لگ جاتی تھی وہ
اسے صحیح غلط ثواب گناہ میں مطلب اور خوف میں خداسےملارہی تھی ناکہ خدا کی محبت میں۔۔۔۔۔۔
وہ اسے تب سمجھاتی جب وہ اس سےاپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں شیئر
کررہا ہوتا ۔۔۔۔یوں اسکا نتیجہ یہ نکلاکہ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں پھیکی پڑنے لگ گئی__
ایسا ہی کچھ حال ہماری قوم
کا ہوچکاہے۔۔۔
ہمارےتہوارہمارےپرمسرت مواقعے بےرونق ہوتےجارہےہیں بلکہ
کافی حد تک ہم خوشی کے احساس سےہی اجنبی ہوچکےہیں۔۔۔
اگرہم غورکریں توغیرمسلم کے تہوارزیادہ اتحاد سے منائےجاتےہیں۔۔۔ہولی
ہویاکرسمسبڑےولولےسے منائی جاتیں ہیں۔۔۔
لیکن__
ہمارے ہاں کبھی محرم کے سوگ پراعتراض اٹھ جاتاہےتوکبھی ولادت
ِسرورکونینکے جشن پر ضتوی لگ جاتاہے_جہاں کل غیر مسلم کے گھر بھی اپنی عیدکی سویاں
بھیجی جاتی تھی
وہاں آج ایک ہی ملک میں رہ کرشوال کا مہینہ الگ تاریخ سے
شروع ہوتاہے__
چھوٹی چھوٹی خوشیاں روح کی آکسیجن ہوتی ہیں لیکن ہر موقعے
پر تہوار پراپنےسوالات واعتراضات سے آکسیجن کو آلودہ کردیاہے_
خوشیاں راحت کے لیے ہوتی ہیں لیکن ہم نے صحیح غلط اچھائی
برائی کی نزرکردیاہے۔۔ہنستے لوگ ہنس کیوں رہے اور رونے والوں کو رنج کس بات کا۔۔۔؟؟
ہم صحیح بات صحیح وقت پرکرنےکےاس قدرعادی ہوچکےہیں کہ ہمیں
اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتاکہ وہ وقت اس بات کے لیے کتنا صحیح ہے_دوسروں کے عقائد
و جزبے ہمارے لئے بےمعنی ہوچکےہیں۔۔ہم خود کو درست ثابت کرنےکےچکرمیں دوسرےکو غلط ثابت
کرنےپرتل گئے ہیں_
شائدیہ ہی وجہ ہے کہ لوگ خوشیاں محسوس کرنےسے بھی ڈرنےلگے
ہیں کہ نجانے کب کس پرکوئی بھی اٹھ کرکفر کا یہ ملک سے غداری کا فتویٰ داغ دے_شاید
یہ ہی وجہ ہے کہ غیر مذہبی تہوار زیادہ جوش سے منائے جاتے ہیں....
شائد یہ ہی وجہ ہے کہ اب رش توہوتاہےلیکن رونق نہیں ہوتی٫٫شورتوہوتاہےجشن
نہیں ہوتا اور اس لئے ہی لوگ ہنستے تو ہیں مگر خوش نہیں ہوتے ۔۔۔
کیونکہ
خوشیاں ناپیدہوچکی ہیں!!!!!!!!
Allaw❤
ReplyDelete