ڈپریشن/ذہنی تناؤ
از قلم: شمائلہ ملک
سٹریس کھچاؤ کو کہتے ہیں چاہے وہ پٹھوں کا ہو یا ہمارے دماغ اور سوچوں کا ہو۔ آج کے دور میں ہر دوسرا فرد ڈپریشن کا مریض ہے۔ اصل میں اس کی بنیادی طور پر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
ہم خود کو ضرورت سے زیادہ بوجھ لادنے کا عادی بنا رہے ہیں۔ جس سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے جارہےہیں۔ حالانکہ اصول یہ ہو کہ جو کام یا بات ہمارے لیے مفید ہو اسی پر توجہ مرکوز کریں اس کے برعکس ناکارہ اور بےحقیقی عوامل سے اجتناب کرنی چاہیئے۔
ہم ہر چھوٹی بات کو سٹریس لینا شروع کردیا ہے اور اپنے دماغ کو تھکانے کا عادی بنادیاہے۔ جس اسے سیز پیدا ہونے ہیں۔ جو ہمیں کمزور کرتے چلے جاتے ہیں اور ہم بہتر طور پر کوئی کام بہتر نہیں کرسکتے۔ جس سے ہماری "ذہنی اور جسمانی" کارکردگی خراب ہوتی جارہی ہے۔
ہر دوسری بات پر پریشان ہونا بےوقوفی ہے۔ جو باتیں ہمارے معمول کا حصہ ہوں ان پر سٹریس بنتا ہی نہیں ۔ مطلب ہم صبح اسکول، آفس یا کام پر جاتے ہیں۔ یا بچوں کو اسکول بھیجنے ہیں یا گھر کے کام کرنے ہیں یا آفس میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے سٹریس یا ٹینشن لینے سے وہ کام آسان ہوجاتا ہے بلکہ مزید مشکل ہوجاتا ہے۔
اسی طرح آفس میں سربراہ(Boss) کا سامنا کرنے کی ٹینشن یا اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں معلم(Teacher) کی کلاس لینے کی ٹینشن یہ پریشانیاں(Tensions) ہم نے پال رکھی ہیں۔ جو درحقیقت ہمارے فرائض(Duties) کا حصہ ہیں۔ پر ہم نے اسے بوجھ سمجھ لیا ہے اور اسی طرح اپنی صحت خراب کرلی۔
اسی طرح شادہ بیاہ یا کسی موقع(Function) پر جانا ہے تو خود کو ایک اور پریشان کرنا کہ کیا پہننا اور کیسے سب تیاری کرنی ہے۔ فلاں نے تو ایسی تیاری کی ہوگی، میں پیچھے کیوں، یہ فضول اور اضافی سوچیں ہیں۔ کوئی اچھا لگ رہا ہے یا برا اسے اپنے ساتھ موازنہ اور الگ سے پریشانی پال لینا کوئی مثبت فعل نہیں۔ آپ جو ہیں جیسے ہیں جہاں ہیں جس حال میں ہیں۔ اسے قبول کریں اور خوش رہیں۔ آج کل ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے بھی پریشانی شکار ہیں اصل وجہ ہے کہ وہ ان کی پہلی تربیت گھر سے ہوتی ہے گھر میں اپنے والدین یا بڑوں کو وہ پریشانی میں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ہر فضول بات پر پریشان ہونا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ہم نےخود کو خراب کرلیا ہے۔ پر اپنی نئی نسل کے بچوں کو فضول معاملات سے نکالیں۔ بچے گھروں میں بےاتفاقی اور بدحالی دیکھ اپنے دل و دماغ پر گہرا اثر لیتے ہیں۔ سب سے بڑی پریشانی زندگی میں کچھ کرنا اور آگے بڑھنا ہے۔ یہ ہم سوچ تو رکھتے ہیں لیکن منصوبہ کے تحت مکمل محنت و مشقت نہیں کرتے تو اپنا اصل مقصد یا منزل بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم نے ذہن میں جو خاکہ بنا رکھا ہے اس حصار سے نکل کر حقیقت قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے اسی وجہ سے "ذہنی تناؤ" کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ حالانکہ اس میں اگر اس حقیقت کو قبول کر لیں جو مقصد تھا اس کےلیے محنت نہیں کی تو وہ مقام کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔یہ سوچ بھی رکھیں تو ہم بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں۔
ہماری پریشانی ایک بڑی وجہ "مزہب،دین اور ادب" سے دوری بھی ہے۔دنیا کا کوئی بھی مزہب پریشان ہونے کی دعوت نہیں دیتا۔ "اسلام" تو مکمل "امن و سکون" کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن ہم اس پر توجہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
پریشانی کی وجہ یہ بھی ہےکہ ہمیں لگتا ہے ہم ٹھیک ہیں جو ہماری سوچ ہے اس کو سب مانیں اور تعریف بھی کریں۔ حالانکہ ہر انسان جدا جدا سوچ کا مالک ہے۔ ہر انسان کے تجربات بھی مختلف ہوتے ہیں۔اس لیے کبھی ایک خاص مقصد کےلیے ہر انسان کا "زوایہ نظر" مختلف ہوگا۔ چونکہ سوچنے کی صلاحیت الگ ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جو اصل ہم ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
ایک ہی انسان مختلف لوگوں کی نظر میں اچھا اور برا بھی ہوسکتا ہے وجہ یہ ہے کہ اس کا رویہ ہر ایک ساتھ یکساں نہیں ہوتا۔ جس سے اچھا ہوتا ہے وہ اس اچھائی کی نظر میں جانتا ہے جس رویہ یا اخلاق برا ہوتا ہے اسکی نظر میں برا۔
چھوٹی سی زندگی ہے خوش رہنا سیکھیں۔ اگر آپ خود کو بےچین محسوس کر رہے ہیں تو خود سے سوال کریں خود کو وقت دیں۔ اپنی اندر کی پریشانی تلاش کریں۔ پھر سوچیں جس بات پر پریشان ہیں کیا وہ اتنی اہم ہےکہ آپکی خوبصورت زندگی پل پل خراب رہے؟ اپنے پیاروں کو پریشان کر رہے ہیں۔ کیا وہ پریشانی اتنی اہم ہے کہ خود کو اور گھر والوں کو بےسکون کرنا بنتا ہے۔ اپنے آپ کو وقت دیں۔
اپنا معمول تبدیل کریں۔ اپنے ذہن کو نئے کاموں میں مصروف کریں۔ کہیں سیر کو جائیں مارکیٹ جائیں۔ مزاحیہ ڈرامہ یا فلم دیکھیں یا کسی سے مزاحیہ گفتگو کریں یا سنیں۔ خود کو سکون محسوس کروائیں۔
پریشانیاں اجتماعی ہوتی ہیں۔ جیسے بجلی،گیس، پانی، مہنگائی، بےانصافی اور تحفظ کا مسائل اسی طرح کچھ انفرادی مسائل بھی ہوتے ہیں جیسے بےروزگاری، گھریلو جھگڑے، اولاد کی پریشانی وغیرہ۔
1) باتوں کو غور کریں۔کہ کتنی ضروری ہیں جس کی وجہ آپ خود کو اندر سے ختم کرتے جارہے ہیں۔
2) آپ اہم ہیں نہ کہ پریشانی کو خود سے اہمیت دینے لگ جائیں۔
3) وقت اہم ہے۔
4) جب بھی بےچین ہوں خود کو کہیں سکون، سکون۔ اپنے دل و دماغ کو کہو سکون۔ ایسا کرنے سے اپنے اندر ٹھہراؤ محسوس کریں گے۔
5) روزانہ پانچ منٹ خود کو دیں۔ خود سےسوال کرتے رہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں اکیلے ہیں۔
6) آپ جب بھی پریشان ہوں اپنی پریشانی فوراً کسی کو نہ بتائیں پہلے اس کی نوعیت دیکھیں پھر جو آپ کے قریب ہو آپکو قریبی محسوس ہو ان سے اپنی بات ظاہر کریں اور مشورہ طلب کریں۔
7) جب تک ہم اپنے کام سے کام نہیں رکھیں گے ہم نہ خود سکون سے رہ سکیں گے نہ ہی کسی دوسرے کو سکون دے سکتے ہیں۔
8) جب بےسکون ہوں لمبے لمبے سانس لینا شروع کردیں۔ اگر فارغ بیٹھے ہوں تو اٹھ کر کوئی کام کرنا شروع کردیں۔
9) جب بھی پریشان یا اداس ہوں تو ایک "ڈائرای یا صفحہ پر لکھ لیں اس کے بعد بےپراوہ ہوجائیں۔ لکھتے وقت سارا غم و غصہ اس صفحے پر لکھ دیں۔ جتنا دل کرے۔ پھر آپ خود کو ہلکا اور پرسکون محسوس کرنے لگیں گے۔
Comments
Post a Comment