( تعلیمی نظام .........علم اور عمل )
عابدہ حسین
تعلیم کی سہولیات میسر کرنا ریاست کا اور تعلیم حاصل کرنا عوام کا بنیادی
فرض ہے اور علم حاصل کیے بغیر کووئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ مگر اس کے لیے بہترین تعلیمی نظام کا ہونا ضروری ہے بالکل اسی طر ح جیسے کسی بھی بیماری کے
علاج کے لیے بہترین دوا کا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام
دنیا کا مشکل ترین نظام ہے ۔۔چند خرابیاں جو شروع سے ہی موجود تھیں نے دن بہ دن شدت
اختیار کی اور بہت سی نئی خرافات کو جنم دیا آج موجودہ تعلیمی نظام دو حصوں میں بٹ
چُکا ہے بلکہ یوں کہیے کہ دو طبقات میں امیر کے بچے کے لیے ایئر کنڈشنڈ بیکن ہاوس سکول سسٹم اور غریب کے لیے گورنمنٹ سکول
.....یہ بات قابِل قبول ہے کہ گورنمنٹ سکول کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی مگر دیہات
میں موجود گونمنٹ سکولز آج بھی وھی صورت حال اختیار کئے ہوۓ
ہیں ۔جو پہلے تھی اساتذہ سکول تو آتے ہیں مگر گپ شپ میں وقت گزاری کرتے ہیں اورچلے
جاتے ہیں۔ ار کچھ استاتذہ کرام نے تو چھ سات
ہزار پر ایک ایکسٹرا ٹیچر ہائر کررکھا ہے۔
یا پھر کسی سٹوڈنٹ کو ہی مانیڑ ہائر کر دیا جاتا ہے جو ٹیچر کے ہیلپر کے طور پر کام
سر انجام دیتا ہے ...اور دوسری پرائیویٹ سیکڑ میں ٹیچر ایک نوکر کی طرح بچے کے ہینڈ
تک خود واش کرواتاہے ۔۔۔ یہی ہے ہمارا نظام امیرانہ اور غریبانہ ۔
جبکہ پاکستان میں غربت کی شرح % 40 سے بھی
تجاوز کر چکی ہے ۔ اور اس صورت حال کو موثر تعلیمی نظام سے بہتر بنایا جا سکتا ہے
..کچھ ہی دن پہلے استاتذہ کے اون لاٸن
تبادلوں نے گورنمنٹ سکولذ کی حالت میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے شہری علا قوں کے استاتذہ
نے اپنی سہو لت کے مطا بق اپنے علاقہ میں تبادلے کروا لیے اور دور دراز کے سکولز میں
ٹیچرز کی شدید قلت کے با عث گورنمنٹ سکولز میں تعلیم نہ ہونے کے برابر رہ چکی ہے آج
ہمارے ملک میں سب سے ذیادہ مساٸل
کا سامنا غریب کو کرنا پڑتا ہے ۔جو محنت مزدوری کر کے اور اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں
کو تعلیم دلاوانے کی کوشش کرتا اور اول تو اس غر یب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے کے لیے آج کے دور میں
میٹرک تک تعلیم حاصل کرنا ہی کافی دشوار ہوتا ہے اور اگر وہ میٹرک کر بھی لیتا ہے تو
اس کے بعد پھر سے اسے کا لج لیول پر دوبارہ سے انہی مساٸل
سے دوچار ہونا پڑھتا ہے اور نمبروں کی ریس میں جس میں کسی پراٸیوٸٹ
کا لج میں رٹا سسٹم سے 1100میں سے 1050 نمبر لینے والا سٹوڈنٹ اس سے فوقیت لے جاتا ہے اور یونیورسٹی میں داخلے
کے لیے فرسٹ ٹائم اور سیکنڈ ٹائم شفٹ اور سنگل فیس اور ڈبل فیس کی چکی میں پھر سے وہ
پیس رہا ہوتا ہے اور اگر کسی جاب کے لیے اپلاٸ
کرتا ہے تو دوبارہ اسے ویسے ہی ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے کہیں اسے کس ایم این اے کی
سفارش نہیں ملتی اور کہیں رشوت نہ ہونے کی وجہ سے پھر محروم ...کوئی اس بات کی پرواہ نہیں کرتاکہ ہو سکتا ہے اس بچے کا باپ کسی بھٹے پہ اینٹیں بنانے
والا مزدور ہو یا پھر اپنی کمر پر بوجھ لادنے والا محنت کش مگر اس کی پرواہ کون کرے
... بس غریب کو غریب ہی رہنے دو ...ہمارے ملک
میں موجود تعلیم نے اور پرائیویٹ اداروں کی
بھر مار نے نئی نسل کے تعلمی مقصد کو کھلا کر دیا ہے اب علم حاصل کرنے کا مقصد
صرف ایک ہی ذیادہ نمبر حاصل کر نا اور زیادہ تنخواہ والی نوکری حاصل کرنا ۔۔۔ عمل فکر
سے خالی علم بے اس سے پھر ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ رواں سال میں ایک نجی کالج کی انٹرمیڈ
یٹ کی سٹو ڈنٹ سٹڈی کے سڑیس کی وجہ سے زندگی سے محروم ہو گئی یا پھر میڑک کا کوئی سٹوڈنٹ
مارکس کم آنے سے والدین کی ناراضگی کے باعث خودکشی کر لے گا ....اس صورتحال سے بچنے
کے والدین اور اساتذہ کی تر بیت ہونا لازم
ہے اور اس بات کو سمجھنا کہ علم حاصل کرنے کا مقصد بہترین انسان بننا ہونا چاہیے ۔
اگر
حصول علم کا مقصد صرف جائز اور نا جائز طریقے سے ڈاکٹر اور انجیئنر بننا ہوتا
تو پہلی وحی یہ نہ ہوتی ...
"پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا
۔جس نے انسان کو جمے ہوۓخون
سے پیدا کیا۔پڑھ کہ تیرا رب بڑا کر یم ہے ۔جس نے قلم سے علم سکھایا اور وہ کچھ سکھایا
جو وہ نہیں جانتا تھا۔"
*******************
Nice
ReplyDelete