Maey ne me kenun akhan by Bushra Memon



(مائی نی میں کنوں آکھاں)
تحریر بشری میمن
"آج صبح میں اپنی فرینڈز کے ساتھ پبلک پارک میں گئی.
ہم لوگ وہاں واک کرتے ہیں.
ہم واک کر کے تھک چکے تھے. جب تھک کر بیٹھ گئے ہم لوگ تو وہاں ایک عورت آئی جو عمر رسیدہ تھی.
یوں تو اس عورت کو میں روز دیکھتی تھی لیکن آج جب قریب ہی گھاس کاٹتے دیکھا تو میں اس سے مخاطب ہوئی.
اماں اس عمر میں بھی کام کر رہی ہو.
انہوں نے کہا, ہاں بیٹی کیا کروں بہو, رشتے داروں کے ہاں گئی ہوئی ہے. گھر میں ڈھور ڈنگر ہیں. میں کام نہ کروں تو وہ بھوکے مرتے ہیں. ان کا کون کرے کام.
میں نے ہوچھا, اماں اور کوئی نہیں گھر میں؟ آپ تو چل بھی نہیں سکتیں.
انہوں نے کہا, کیا بتاوں بیٹی, گھر میں میرا میاں اور ایک پوتا ہے. ان کا کام بھی میں ہی کرتی ہوں.
مجھے افسوس ہو رہا تھا ان کی حالت دیکھ کر.
کیوں کے وہ مشکل سے چل پا رہی تھی.
ویسے تو میں روز ہی دیکھتی تھی اس اماں کو جنہوں نے پانچ روز سے وہی میلے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے.
میں نے کہا اماں, آپ کی بہو اگر رشتے داروں کے ہاں گئی ہوئی ہے تو آپ بھی اپنوں کے پاس چلی جاو کچھ دن.
کہتی ہے, دھی میکے والے ہونے نہ ہونے کہ برابر ہیں.
میں نے پوچھا کیوں اماں؟
کہتی ہے میں ایک خانہ بدوش کی بیٹی ہوں. جب میں پیدا ہوئی تو میری ماں کو پہلے سے ہی بریسٹ کینسر ہوگیا تھا. میرے پیدا ہونے کے کچھ دن بعد میری ماں مر گئی.
بیوی مری تو میرے باپ نے دوسری شادی کرلی.
جب دوسری بیوی گھر میں آئی تو کچھ ماہ کی بچی دیکھ کر پریشان ہوگئی. اس نے میرے باپ سے کہا, یا تو اس بچی کو کہیں چھوڑ آؤ یا میں گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی.
مجبورا میرے باپ نے مجھے ایک مٹی کے برتن بنانے والے کو دے دیا, مجھے تو کچھ یاد بھی نہیں ہے. میں مسکراتی بھی تھی تب یا نہیں. پتہ نہیں میرے باپ نے مجھے بیچ دیا یا ویسے ہی کمہار کو دے دیا.
کمہار نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا. جب میں کچھ بڑی ہوئی تو میرے کمہار باپ نے مجھے ایک بندے کو یہ بول کر دے دیا کہ ہمارے اپنے گھر میں لڑکیاں ہیں تم چاہو تو بچی ساتھ لے جاؤ. وہ بندا مجھے گھر لے آیا اس نے میری پرورش, کی اور اپنے بیٹے کے ساتھ بیاہ دیا جو باقاعدہ میرے کمہار باپ سے برتن خریدتے تھے.
یہ سب بتاتے ہوئے بوڑھی اماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو دیکھتے ہی دیکھتے میرے دل پر بھی گرنے لگے.
میں نے پھر سوال کیا. اماں, کبھی اپنے ابا کے گھر گئی ہو.
کہتی ہے ہاں بیٹی بہت بار گئی ہوں. میری عزت کرتے ہیں وہ لوگ. باپ تو کب کا مر چکا ہے, لیکن سوتیلے بھائی بہن ہیں جن میں سے اکثر اب فوت ہوچکے ہیں.
میں نے پوچھا اماں آپ کی کتنی اولادیں ہیں. کہتی ہیں میرا ایک بیٹا ہے دھی.
اماں آپ کی عمر تو نہیں کام کی, مت کیا کریں.
دھی! کوئی کسی کا نہیں ہوتا, کام نا کروں تو بہو طعنے دیتی ہے کہ تو خریدی ہوئی ہے. بچپن سے یہ طعنے سنتی آ رہی ہوں.
اس عمر میں اب یہ طعنے نہیں سہے جاتے. انہوں نے یہ کہا تو مجھے ان کی آنکھوں میں گہری ویرانی محسوس ہوئی.
میں بس بوڑھی اماں کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیسے کیسے لوگ ہیں دنیا میں.
ایک رنڈوے کو اپنی بیٹی دے سکتے ہیں لیکن اسی رنڈوے کی بن ماں کی بچی کی پرورش نہیں کرسکتے.
اتنے میں ان اماں کے بوڑھے میاں آئے جو وہ کٹی ہوئی گھاس گدھے پر لاد کر بوڑھی اماں کو گدھا گاڑی پر بٹھا کر چلے گئے.
لیکن میں بس اس بوڑھی اماں کو دیکھتی رہی دور تک, ان کی باتیں سن کر میرا کلیجہ چھلنی تھا اور مجھے پتا بھی نہیں چلا کب دو آنسوؤں کے قطرے گرے اور میرے دامن میں جذب ہو گئے ...
***************

Comments