۔۔۔۔۔۔۔ فکر اعجاز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* اللہ تعالی سے رجوع اور نوجوان نسل
تحریر : اعجاز علی چشتی
اب وه میرے بغیر نہيں ره سکتی ۔ ایک پل بھی نہیں ره سکتی ۔ میری محبت اس سے کوئی نہیں چھین سکتا اب بس میرے صرف ایک اشارے پر اس نے اپنے ماں باپ ، بھائی ، بہن سب کچھ چھوڑ کر ساری زندگی کے لیے میرا بننا ہے ۔ میرا۔ یہ شام کا وقت تھا ڈیرہ پر بیٹھےسگو میاں اپنی محبوبہ کی تعریف کے ساتھ ساتھ مسلسل کہتا جا رہا تھا اپنے دوست اچھو سے
اور ہاں اچھو اس کو گھر سے بھگانے کے لیے تم نے میراساتھ دینا هے اچھو کا کندھا پکڑ کر جھنجھوڑا او سمجھے اچھو
ان کے گھر والوں کو پتا چل گیا اور کوئی مسلہ بن گیا۔۔۔۔تو ۔۔۔اچھو نے کہا
اچھو مزید سوال کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔مگر سگو نے اس کو ٹوکتے هوۓ کہا ۔
خیریت هے! کیسی باتیں کر رہے ہو اچھو ۔وہ۔۔۔۔۔ بھلا ۔۔۔ وہ کمی (غریب) اور میں ایک بڑے چودھری کا بیٹا ۔۔۔ وه میرا کیا بگاڑیں گے؟ ایسی تیسی ان کی ۔۔۔ سگو غصے سے لال پیلا هوتے ہوے بولا ۔
تم نے صرف جا کر میرا پیغام دینا هے بنت حوا کو کیونکہ تم ان کے گھر آتے جاتے هو اور ہاں قانون بھی لڑکی اور لڑکے کی محبت کی شادی کی حمایت میں ہے پھر تھانے دار ابو کا دوست ہے مگر اچھو نے حیرانگی سے کہا سگو یار لاکھ قانون سپورٹ میں هو اور تھانیدار بھی دوست هو اگر میری بہن کو کوئی ایسا پیغام دے اور پھر کہے کہ محبت کی شادی میں قانون هماری مدد کرتا ھے وۼیرہ وغیرہ تو میرے ساتھ کیا بیتے گی؟ مگر سگو کیونکہ بنت حوا کو گھر سے بھگانے کی پوری تیاری کر چکا تھا چنانچہ اس نے اچھو کے اس سوال کی سنی ان سنی کر دی اور بولا
اچھو کانوں کی کھڑکیاں کھول کر سن لو یہ کام میں نے کرنا ھے ہر حال میں کرنا ھے تم لاکھ دفعہ مولوی بنو چلو یہ مدد آپ کی جگہ کسی اور سے لے لونگا لوگ تو ڈھیروں ہیں جن کو صرف کہنے کی دیر ھے وہ جانتے ہیں کہ چوہدری صاحب کا بیٹا ھے مگر تم کیونکہ گہرے دوست ہو اس لیے زیادہ اعتماد تھا۔آج کے بعد تیرے ساتھ میری دوستی کا نام و نشان بھی ختم ۔ اچھو نے کہا ہاں! اچھے دوست کبھی غلط مشوره نہیں دیتے جس سے آخرت میں بھی اور دنیا میں بھی رسوائی هو ۔تم کو رب کائنات کا فرمان یاد نہیں جس کا مفہوم ہے کہ " اچھے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دو جبکہ برائی اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو"
اب اچھو نے بڑے نرم اور دھیمے لہجے میں کہا
سگو تم صرف میری آخری بات سن لو ، پوری بات غور سے سن لو پھر تم جو فیصلہ مرضی کرنا سگو کیونکہ غصے میں تھا بڑی مشکل سے بات سننے پر آمادہ ہوا ۔ بولا چلو سناؤ
اچھو یوں مخاطب هوا سنو !
دنیا کا ظالم و وحشی ترین انسان ہلاکو خان اپنے گھوڑے پہ شان سے بیٹھا ہوا تھا، چاروں طرف تاتاری افواج کی صفیں کھڑی تھی، سب سے آگے ہلاکو خان کا گھوڑا تھا، ہلاکو خان کے سامنے قیدی مسلمانوں کی تین صفیں کھڑی کی گئی تھیں، جنکو کو آج ہلاکو خان نے اپنے حکم پر قتل ہوتے دیکھنا تھا ،
پھر وہ ظالم بولا، انکے سر قلم کردو!
اور جلاد نے لوگوں کے سر کاٹنے شروع کردئیے، پہلی صف میں ایک کی گردن گئی دوسرے کی گردن گئی، تیسرے چوتھے کی، پہلی صف میں ایک بےقصور بوڑھا غریب قیدی جوکہ اپنے گھر کا واحد کفیل، بھی کھڑا تھا، وہ موت کے ڈر کی وجہ سے دوسری صف میں چلا گیا، پہلی صف کا مکمل صفایا ہوگیا ،
ہلاکو خان کی نظروں نے اس بوڑھے کو دیکھ لیا تھا کہ وہ موت کے خوف سے اپنی پہلی صف چھوڑ کر دوسرے صف میں چلا گیا تھا، ہلاکو خان گھوڑے پہ بیٹھا ہوا ہاتھ میں طاقتور گرز لیے اچھال کر اس سے کھیل رہا تھا اور مسلمان عں کے قتل کا منظر دیکھ کر اس کھیل سے خود کو خوش کررہا تھا ،
جلادوں نے دوسری صف پہ تلوار کے وار شروع کیے ، گردنیں آن کی آن میں گرنے لگیں ،
جلاد تلوار چلا رہے تھے اور خون کے فوارے اچھل اچھل کر زمین پہ گررہے تھے، اس بوڑھے بابا نے جب دیکھا کہ دوسری صف کے لوگوں کی گردنیں کٹ کر اس کی باری بہت جلد آنے والی ہے تو وہ بھاگ کر تیسری صف میں کھڑا ہوگیا، ہلاکو خان کی نظریں بوڑھے پہ جمی ہوئی تھی کہ اب تو تیسری صف آخری ہے اسکے بعد یہ کہاں چھپنے کی کوشیش کرے گا ؟ اس بیوقوف بڈھے کو میری تلوار سے کون بچا سکتا ہے، میں نے لاکھوں انسان مار دیئے تو یہ کب تک بچے گا ؟
تیسری صف پہ جلادوں کی تلوار بجلی بن کر گر رہی تھی، ہلاکو خان کی نظریں مسلسل اس بوڑھے پہ تھی کہ کیسے وہ بے چین ہوکر موت کی وجہ سے بے قرار ہے، تیسری صف کے انسانوں کی گردنیں گررہی تھی، جلاد بجلی کی سی تیزی سے اس بوڑھے بابا کو پہنچا تو ہلاکو خان کی آواز گونجی ،
رک جاو! اس کو ابھی کچھ نہ کہو ،
بابا بتا پہلی صف سے تو دوسری صف میں بھاگ آیا،
جب وہ ختم ہوئی تو تو تیسری صف میں بھاگ آیا،
بابا اب بتا، پیچھے تو کوئی اور صف بھی نہیں اب تو بھاگ کی کہاں جائیگا، اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟
اس بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا، میں نے پہلی صف کو اسلیے چھوڑا کہ شاید میں دوسرے میں بچ جاو، لیکن موت وہاں بھی پہنچی، پھر میں دوسری صف کو چھوڑ دیا، کہ شاید تیسری میں بچ جاؤں ،
ہلاکو نے گرز کو ہاتھ میں اچھالتے ہوے کہا بابا کیسی خام خیالی ہے یہ کیسی بہکی باتیں کررہے ہو بھلا تمہیں میری تلوار سے بھی کوئی بچا سکتا ہے؟
بوڑھے مسلمان نے زمین وآسمان کی ہر چیز کے مالک اس واحد لاشریک رب پر بےانتہا یقین کے ساتھ کہا، وہ اوپر والی ذات اگر چاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو مجھے تجھ سے بچا سکتا ہے ،
کیسے بچا سکتا ہے؟ ہلاکو خان نے اتنے تکبر میں آکر کہا کہ اسکے ہاتھ سے گرز گر پڑا ،
ہلاکو خان چابک دست ہوشیار جنگجو اور چالاک انسان تھا، ہلاکو خان گھوڑے کے اوپر بیٹھے بیٹھے گرے ہوئے گرز کو اٹھانے کے لیے خود کو جھکایا کہ زمین پہ گرنے سے پہلے وہ اسے ہوا میں ہی پکڑ لے، اسی کوشیش میں ہلاکو خان کا ایک پاوں رکاب سے نکلا اور وہ اپنے گھوڑے سے نیچے آپڑا، جبکہ دوسرا پاؤں رکاب میں ہی پھنس کر رہ گیا ،
ہلاکو خان کا گھوڑا اتنا ڈر گیا کہ بھاگ نکلا، ہلاکو نے خود کو بچانے کی بڑی کوشیش کی، لشکر بھی حرکت میں آگیا لیکن گھوڑا اتنا طاقتور تھا کہ کسی کے قابو میں نہ آیا، وہ ہلاکو کو پتھروں میں گھسیٹ گھسیٹ کر بھاگتا رہا، یہاں تک کہ ہلاکو کا سر پتھروں سے پٹخ پٹخ کر اسقدر لہولہان ہوگیا کہ اس کی روح چند ہی منٹوں میں اپنے اس تکبر بھرے وجود کو چھوڑ کر جہنم رسید ہوگئی ،
لشکر نے جب بےانتہا کوششوں کے بعد ہلاکو خان کے طاقتور گھوڑے کو قابو کیا تو اس وقت تک اسکا سر برے طریقے سے کچلا جاچکا تھا ،
ہلاکو کا لشکر اس بوڑھے بزرگ سے اتنا خوفزداہ ہوگیا کہ لشکر نے اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا اور وہ بابا بڑے آرام وسکون سے پیدل ہی اپنے گھر کیطرف چل پڑا سگو دیکھو تم بھی ظالم بننے جا رہے ہو اور یاد رکھو کہ
ظالموں کا انجام کیسے ہوتا ہے؟ جن کی بیٹی یا بہن کو تم عشق مجازی کے جال میں پھنسا کر گھر سے بھگا کر لے جاؤ گے اور ان سے عزت کے ساتھ ان کی رضا مندی سے باقاعدہ رشتہ طے کر لینے کے بجائے عدالت میں شادی(کورٹ میرج) کرو گے اور اگر ۼریب ہونے کے ناطے فرض کیا ان کی بات کوئی نہیں سنے گا ، مانا آپ کے پاس مال و دولت کی ریل پیل ان کے پاس مشکل سے دو وقت کی روٹی ، پولیس ، قانون دان سب آپ کے ساتھ اور میڈیا میں بھی آپ کے دوست ان کے ساتھ فقط ان کی ذات ۔ اس پیش نظر اس کے والدین کچھ نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں هو گا اور ان کا قصور صرف اور صرف یہ ہو گا کہ ان کے گھر میں اللہ تبارک وتعالی کی عنائیت سے خوب صورت بیٹی هے اس وجہ سے تم ان کو بے عزت کرنا چاہتے ہو مگر یاد رکھو اللہ تعالی خوب جاننے اور سننے والا هے وہ تو دیکھ رہا ھے جو سب سے زیادہ طاقت ور ھے وہ اسی طرح سزا دے گا جس طرح هلاکو خان کو دی اس کی چوہدراہٿ اور بادشاہت وجرنیلی کسی کام نہ آئی
اچھو کی باتوں کا سگو پر گہرا اثر هوا اس نے پرنم آنکھوں سے اچھو کو یہ کہتے ہوۓ گلے لگایا
"اچھو میں سمجھ گیا تم واقعی اچھے دوست ہو اور آج عریانی و فحاشی کے اس دور میں مسلمان نو جوانوں کو ایسے ہی مخلص دوستوں کی ضرورت هے جو اپنے دوستوں کی کردار سازی کرتے ہوۓ اچھے انسان اور پکے مسلمان خود بھی بن سکتے هیں اور دوستوں کو بھی بنا سکتے هیں پھر کئی محمد بن قاسم مسلم معاشرہ میں دوباره پیدا هو سکتے هیں
اب عشاء کا وقت هو چکا تھا اچھو نے سگو کو ساتھ لیا دونوں نے مل کر نماز باجماعت ادا کی اور سگو نے دو رکعت نوافل پڑھے اور اللہ کے حضور گڑ گڑا کر توبہ کی اور ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا سگو رہ راست پر آ چکا تھا
اب دونوں خوش خوش گھر چلے گۓ
همیں بھی ایسی ہی فکر کرنی چاہیے اور همیشہ
مظلوم کی آہ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ جب وہ اللہ سے رجوع کرتا ہے تو قبولیت بہت دور سے اسکا استقبال کرنے آتی ہے!
یہ تحریر تمام اہل ایمان خصوصاً قانون و انصاف کے رکھوالوں کے لئے بھی ایک دعوت فکر ہے۔
میں نے اچھا لکھنے کی کوشش کی کس حد تک کامیاب رہا ؟ آپ کی آراء سے میرا حوصلہ بڑھے گا
Very nice
ReplyDelete