قتل بنام غیرت۔
قتل کی کوئی دلیل نہیں ہوتی ۔ پھر چاہے وہ غیرت کے نام پر ہی کیوں نا ہو ۔ ویسے تو ہر قتل ہی غیرت یعنی ذاتی انا کی تسکین کی خاطر ہی ہوتا ہے ۔ لیکن اس کا ببانگ دہل اعلان صرف " پسند کی شادی " کے نتیجے میں ہونے والے قتل پر ہی کیا جاتا ہے ۔ ویسے سوچتا ہوں تو خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہتا ہے جس نے " اس قتل " کو " غیرت کے نام پر قتل " کا نام دیا ہوگا ۔
چڑھاوے تو چڑھائے جانے چاہیے جس نے اس لازوال حقیقت کو کسی صورت ہی سہی الفاظ تو دیے ۔ہمارے معزز دوست اور قابل احترام ساتھی احسان نے اس بار بڑا دلچسپ موضوع چھیڑا تھا ۔ موصوف اکثر اصلاحی اور دلچسب موضوعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہے ۔
دلچسپ موضوع کی طرح سوال کی ساخت بھی جی للچانے والی تھی۔" کیا غیرت کے نام پہ قتل جائز ہے؟"
سادہ مگر ہم جیسوں کو دل کھول کر لکچر جھاڑنے کا ماحول فراہم کرنے والا۔یہ ایسا موضوع ہے جس پر اسے ناجائز قرار دینے کے دلائل سے ورق بھرے پڑے ہیں ۔ مگر موضوع کے متعلق کچھ اہم چیزیں آپ کے ہاں گوش گزار کرنا ضروری ہوگا ۔
جنھیں سمجھ کر ہمیں اس معاملے کے حل کی جانب جانا آسان ہوگا۔ قتل جیسا بھی ہو قتل قتل ہوتا ہے ۔ ایسے واقعات میں پچھلے عرصے میں اضافہ قابل شرم ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں میں پندرہ سو اڑتالیس ایسے واقعات کے کیسز روپورٹ ہوئے ۔ ریکارڈ کی گرفت سے باہر والوں کی تعداد ابھی نامعلوم ہے ۔
مجموعی طور پر ہمیں اس کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا ۔ غیرت کے نام پر قتل کی اجازت بلکل نہیں ہے ۔ اور اگر کوئی ایسا فعل کرتا ہے تو اسکا اسلام نے ایک قانونی طریقہ کار دے دیا ہے ۔ یہ جہالت کا بیچ چوراہے اعلان ہے ۔ میں اس کا۔ ذمہ دار والدین کو بھی سمجھتا ہوں ۔
شادی ایک معاہدہ ہے جسے نکاح نامہ کہا جاتا ہے ۔جو دو مرد اور عورت اپنی نسل آگے بڑھانے اور پروفیشنل زندگی گزارنے کے لیے کرتے ہیں ۔ اس میں انھیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنی مرضی ، مزاج کے مطابق اپنے جیون ساتھی کا چناؤ کرے ۔ والدین اور معاشرہ کا کردار اس میں مشورہ کا ہے ۔
حتمی فیصلے کا اختیار انھیں ہی حاصل ہے ۔ جب نوجوان سے اسکی زندگی کے اہم فیصلے خود لینے کا حق چھین لیا جاتا ہے تو پھر ایسا ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔
بھئی والدین کی اپنے بچوں سے اتنی انڈر اسٹینڈنگ تو ہونی چاہیے کہ وہ اپنے دل کی بات کھل کر ان سے کر سکیں ۔ اتنا اعتماد تو انھیں حاصل ہونا چاہیے۔ کمیونیکیشن گیپ ایسے معاملات کی بڑی وجہ ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کوئی نوجوان ایسا قدم اٹھانے پر تیار ہوجاتے ہے ؟ اسکا کوئی تو ذمہ دار ہوگا نا ۔ یہ عمل بلکل درست نہیں ہے ۔ اسے بلکل بھی سراہا نہیں جانا چاہیے ۔ لیکن اسکی وجوہات کا پوسٹ مارٹم کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا ۔
والدین کو اپنے کردار کا علم نہیں۔ بچوں کو انکے مشورہ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ۔ انا دونوں طرف سے ہے ۔مگر معاملہ تربیت کا ہے ۔ جہالت کا ڈھول دونوں طرف سے پیٹا جاتا ہے ۔
آخر کیوں ایک بیٹی قدم نکالنے پر مجبور ہوجاتے ہے ؟ اپنی عزت کو اچھالنے کا موقع فراہم کرنے پر تیار ہوجاتے ہے ؟
اسکی وجہ یہ ہے کہ اسے گھر میں باپ کا سایہ تو میسر ہوتا ہے مگر اسکی ٹھنڈی چھاؤں میسر نہیں ہوتی ۔ والدین اور اولاد کے تعلق میں اگر دوستی کا عنصر ناپید ہوتو وہ تربیت پر منفی اثر چھوڑتا ہے ۔
یہاں ایک بہت ہی اہم چیز جس کا ذکر کرنا اہم ہے مگر ہم عمومآ اسے خاطر میں نہیں لاتے ۔ وہ یہ کہ کچھ والدین تو ایسے واقعات میں کھل کر سامنے آجاتے ہیں معاملے کو ضد کی نہج پر لے جاتے ہیں ۔ حالانکہ مذہب اسکی اجازت نہیں دیتا ۔ مگر کچھ والدین ذہنی دباؤ ڈالتے ہیں جس کا منفی اثر پڑتا ہے ۔ ہم اکثر کچھ جملے اسطرح کہ سنتے ہیں کہ " مجھے یقین ہے میرا بچہ میری بات نہیں موڑے گا " حالانکہ اسکی رضامندی نہیں ہے یہ جانتے ہوئے بھی ۔ اکثر " بیٹا ہماری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے اسے اب بچا لو یا اجاڑ دوں "، " اگر تم یہاں نہیں مانے تو ہماری زندگی میں تمھاری کوئی جگہ نہیں " جیسے جملے سننے کو ملتے ہیں جوکہ نفسیاتی دباؤ بڑھاتے ہیں اور اولاد کے دل میں والدین کے لیے بغض پیدا کرتے ہیں۔ اسے مینٹل مین سٹریمنگ کہتے ہیں ۔ شرح طلاق میں اضافے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے ۔ اور ایسے قدم اٹھانے پر اکسانے کا بہترین میٹیریل ۔
اگر والدین اپنے کردار کو سمجھے اور اسکی حفاظت کریں اور اولاد اپنے والدین کے کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فیصلہ کرے تو ایسے معاملات میں کمی ہوسکتی ہے ۔ تربیت کے دوران والدین کو بچوں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ پیوست کرنا چاہیے ۔ غیرت کے نام پر قتل بےہودگی کی انتہا ہے ۔ اپنی ناکامی کا اعتراف اور جہالت کا اعلان ہے ۔
اگر کوئی نوجوان خود سے اپنا فیصلہ کرلیتا ہے تو اسے طلاق پر اکسانے کے اجازت کسی کو نہیں ہے ۔ نا ہی اسکی زندگی چھیننے کا حق کسی کو دیا گیا ۔ اسکے فیصلے کو احترام بخشنا معاشرے کی ذمہ داری ہے ۔
اپنی پسند کو دوسروں پر تھوپنے کی اجازت کسی کو حاصل نہیں ہے اور نا ہی ہونی چاہیے ۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے ۔
خدا نا کرے یہ رویہ ہمارے معاشرے کو گہرے کنویں کی آخری نہج پر نا لے جائے ۔
Comments
Post a Comment