تبدیلی
ہر انسان کے اندر تبدیلی وقت کے ساتھ رونما ہوتی رہتی ہے
کبھی وقت انسان کو بدلتا ہے ، تو کبھی انسان کو وقت کے ساتھ بدلنا پڑتا ہے۔کبھی معاشرہ
کا تقاضہ ہوتا ہے تو کبھی دل کی آواز!
دل کی آواز کیا ہے؟ اور ہم نے اسے کیوں سلادیا ہے کبھی سوچا؟ :
انسان اپنے اندر جب مایوسی بے چینی غصہ پریشانی پاتا ہے
تب اس کے اندر بدلاؤ آنا لگتا ہے اور وہی وقت ہے جب دو راستہ انسان کے سامنے ہوتے اور
اس کسی ایک پہ اپنی مرضی سے چلنے کا اختیار بھی۔ پہلا راستہ وہ جو فطری ہوتا ہے جس
میں انسان قلبی بدلاؤ محسوس کرتا ہے جب دل دنیا کو فانی شے مان کے فطرت کی طرف لوٹنے
کا سفر شروع کرتا ہے یعنی بے سکونی سے سکون کی طرف۔ یہ بدلاؤ بہترین ہوتا ہے اس انسان
کے لیےء لیکن ابتدائ تکالیف کے بعد ۔ کیونکہ یہ تبدیلی ہمارے اردگرد کے لوگ جلدی قبول
نہیں کر پاتے اور کبھی کبھار اس سفر میں ہم تنہا بھی ہوجاتے ہیں اور یوں ہم اور مضبوطی
چاہیے ہوتی تب ایک ہی ذات ہمارے ساتھ ہوتی اس پہ کامل یقین ہی ہمیں لوگوں میں معتبر
بناتی ہے۔ اس بدلاؤ میں کامیابی چھپی ہوئ ہے اور اس کے برعکس دوسری تبدیلی ہو ہوتی
ہے جو ہمیں مایوسی کی وجہ سے دلدل میں لے جاتی ہے۔ ہم اور اللہ کے نافرمان بنتے چلے
جاتے ہیں اور اللہ کے احکامات سے بغاوت کرنے لگتے ہے۔ تب بھی اللہ انسان
کو اس حال میں نہیں چھوڑتا بلکہ وقتافوقتا کسی نہ کسی انسان
کے ذریعہ اسے اپنی طرف لوٹنے کی دعوت دیتا ۔۔آہ لیکن کاش یہ بات انسان سمجھ پاتا وہ
تو اس کو بھی دھتکاردیتا اور پھر ایک وقت آتا کہ اس کا دل اتنا میلا ہوچکا ہوتا کہ
اللہ پھر اسے اس کےحال پہ چھوڑدیتا یعنی دنیا کی سب سے بڑی اور قیمتی شے سے اسے محروم
کردیتا اور وہ ہے ' دل کا سکون' ذہنی اور قلبی سکون دنیا کی وہ مہنگی شے ہے جسے دنیا
کا سب سے امیر ترین انسان بھی نہیں خرید سکتا. جو سمجھتے ہے کہ وہ امیر ہوجاءے گے تو
سکون پالیں گے یا اپنے خوابوں کی تکمیل میں ان کو سکون مل جاءے گا تو وہ بہت خوش گمان
ہے کیونکہ ایسا نہیں ہوگا کبھی نہیں ہوگا جب تک کہ ایک انسان سے وہ ذات راضی نہ ہوجاےء
جس نے اس کو زندگی دی! ہمیں در در سکون تلاش کرتے پھرتے ہے اور سکون تو ہماری ذات کے
اندر پوشیدہ ہے جسے ہم نے اس رنگینی دنیا میں گم ہو کر میٹھی نیند سلا دیا ہے۔ ہمارا
ایمان ۔۔۔جی ہاں اسی میں تو ہمارا سکون ہے اور آج کل تقریباً ہر ' ایمان والا' یہ بات
بھول چکا ہے کہ وہ 'مسلمان ' ہے۔۔۔ ایمان فقط زبان سے یہ کہنا نہیں کہ رب العظیم واحد
ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے نبی۔ اس پہ عملاً بھی ہمیں پورا اترنا تھا۔
اللہ اور رسول کے احکامات پہ عمل ، قرآن کو اپنی زندگی میں لانا اور اپنی زندگی کو
اپنے رب کے موافق چلانا ہی تو اصل ایمان ہے ۔ ایمان یہ ہے کہ آپ کے دل میں اپنے رب
کی عظمت و جلال اتنا بسا ہو کہ قرآن پڑھتے ہوےء آنسو جاری ہوجاےء ، ایمان یہ ہے کہ
نبی کی سنتیں زندگی میں اس طرح گھلی ہویء ہو جیسے شربت میں میٹھاس اس کے بغیر زندگی
پھیکی ہو۔ لیکن افسوس ایسا ایمان والا اب آٹا میں نمک کے برابر بھی نظر نہیں آتا۔نہ
آپ نہ میں وہ جو راتوں کو ہمارے لیے روتے تھے کیا جواب دے گے ہم انہیں؟ آخر کیوں؟ ہم
ایسے ہوگےء کہاں پہ کس کی غلطی ہویء کہ ایسے ایمان والے ہم نہ رہے؟ ہم جاہل تو نہیں؟
دنیاوی ہر ڈگری ہے ہمارے پاس، نہیں ہے تو وہ علم جو سب علم سے افضل ہے ' دین کا علم' اور اس کی سمجھ اللہ و رسول سے ہم محبت کے دعوے ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے لیےء
قربانیاں نہیں دیتے ... نفس کی قربانی
دنیا کی رنگینیاں کس کو نہیں
بھاتی؟ لیکن اسی رنگینیوں کو چھوڑ کہ اللہ کے بتاےء ہوے پہ چلنے کو تو جہاد کہتے ہے۔
بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ سوچے ! جب ایمان لاچکے ہے تو پھر پورا کیوں نہیں؟ جب
اللہ اور رسول کو مانتے ہیں تو ان کی کیوں نہیں؟
یہ بلکل آسان نہیں یقین مانے اس دور میں سب سے مشکل اپنے
نفس کو مارنا ہے۔لیکن کیا ہم نے ایک بات کبھی سوچی کہ جن سے اللہ راضی ہوا انہوں نے
کیا قربانیاں دی تھی؟ کن کے ظلم برداشت کیےء تھے؟ کافروں کے بے انتہا مظالم صرف ایمان
کے لیے برداشت کیےء اور ہم سے اپنا آپ قابو میں نہیں آتا ، ہم سے ہمارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی اتباع نہیں ہوتی ، وہ لوگ جن کے لیےء قرآن فرما رہا ہے ' رضی اللہ عنه
ورضوا عنہ ذلك لمن خشی ربه' سبحان اللہ اصل کامیابی تھی یہ ہے لیکن آج ہمارے نزدیک کامیابی کا معیار بدل گیا
ہے اور یہی وجہ ہے ہمارے معاشرہ میں بظاہر کامیاب نظر آنے والے لوگ سکون کی تلاش میں
مارے مارے پھرتے ہیں۔
دنیا کی کامیابی ہمیں سچی
خوشی وسکون کبھی نہیں دے پاےء گی جب تک ہم اپنے ہر کام میں چاہے دنیاوی ہو یا اخروی اللہ کی رضا کو سب سے آگے نہیں رکھے گے ، کہ آیا میرے رب کو یہ پسند ہے یا
نہیں ! جب یہ سوچ ہماری زندگی میں آیء گی یقین
مانے کامیابی اور سکون ہمارے قدموں کے نیچے ہوگا۔ اللہ کی طرف پہلا قدم اٹھانا ہمیں
ہی ہے تبھی اللہ ہماری طرف دو قدم چل کے آےء گے، ہدایت مانگے گے
تو ہدایت ملے گی سکون مانگے گے تو سکون ملے گا
لیکن پہلا قدم شرط ہے!
تحریر : ربیعہ نور
👌
ReplyDelete