Jehad kejeay haq ke wasty article by Inzamam Mehraj


عنوان ! جہد کیجیے حق کے واسطے
انضمام معراج
بھائیوں یہ نظام اتنا ہی ظالم اور بوسیدہ ہے جتنا کہ آپ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں وہ اچانک خاموشی کی لہروں کو چیرتے ہوئے غرایا ۔ میں چونکا اور اچانک اس کے جملے کو سمجھے بغیر اختلاف کی جسارت کر بیٹھا۔ اس نے گردن اوپر اٹھائی اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے بولا ۔
دیکھو بھئی! آپ جتنا اسے ظاہری طور پر بوسیدہ سمجھتے ہو یہ اتنا ہی باطنی طور پر بھی بوسیدہ ہے ۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا اگر ظاہر کی نسبت باطن میں کچھ چمک اور پاکیزگی کی شمع موجود ہو تو راہ راست پر لانے کے لیے حق گوئی ہی کافی ہوتی ہے ۔لیکن جہاں معاملہ باطن کی خرابی کا بھی ہو وہاں آپ چاہے چار چار گھنٹے واعظ کرتے رہو آخر سامنے والا اپنے کان کے پیچھے کھجلی کرتا ہوا اٹھے گا اور آپ کو " بھائی جان بس کرو اب" کہتا ہوا منہ میں بڑبڑاتا ہوا نکل جائے گا ۔ اور بعد میں آپ جیسے لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ قصور آپ کا ہی ہوتا ہے کیونکہ کہ آپ مسجد کی بجائے شراب خانے میں واعظ کرنے پہنچ جاتے ہیں ۔
بھائی یہاں سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے ہزاروں درد سے لتھڑے حادثات ہوئے لوگوں نے بڑا ادھم مچایا آخر کیا ہوا؟ کیا انصاف مل گیا؟ نہیں ۔۔۔۔۔ ملنا بھی نہیں تھا ۔ کیوں؟ کیونکہ آپ قاتل سے انصاف مانگ رہے ہوتے ہیں مسجد کی بجائے شراب خانے میں واعظ شروع کر دیتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ نظام تھا حکومت وقت نہیں ۔ اور انصاف نظام دیتا ہے حکومتیں نہیں۔ حکومتیں نظام دیا کرتی ہیں ۔
 میں نے پوچھا تو کیا پھر یہ نظام پلٹ دینا چاہیے ؟ بولے نہیں ۔ پلٹنا ایک جزباتی تجویز ہے۔ بدلنے اور پلٹنے میں فرق ہے۔ بدلنے کے لیے پہلے آپ کو معاشرہ بدلنا پڑے گا لوگوں کی تربیت کرنا پڑے گی ۔نظام خود بخود بدلنا شروع ہوجائے گا ۔
جبکہ پلٹنے کے لیے آپ کو معاشرہ بدلنے سے قطع نظر مضبوط بیانیہ ترتیب دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہاں لوگوں کی ذاتی گروتھ سے زیادہ بیانیہ کی گروتھ اہمیت رکھتی ہے۔ جس وجہ سے بعد میں یہی لوگ دیمک بن جاتے ہیں۔ افغانستان کی ہمارے سامنے ہے وہاں لوگوں پر کام کرنے، انھیں تعلیم دینے کی بجائے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں پکڑا دی گئیں ۔ وہ تو بیچارے پہلے ہی آگ میں پل رہے تھے انھیں مزید آگ میں جھونک دیا گیا۔ اسی وجہ سے بعد میں انھی مسلح افراد نے اپنے ہی لوگوں کو نوچنا شروع کر دیا۔
 تو پھر اس کا حل کیا ہے؟ میرے پوچھنے پر انکی آنکھوں میں چمک ابھری اور بولے کہ " حق کے لیے جدو جہد" ۔ہاں آپ کو"صرف اور صرف حق گوئی" سے آگے بڑھنا ہوگا ۔ اور حق کے لیے جدو جہد کرنا ہوگی۔ حق گوئی اور جدوجہد میں فرق کو سمجھو۔ معاشرے کی تربیت کرنا ہوگی ۔ جاؤ جاکر اپنے تعلیمی اداروں میں جھانک کر دیکھو ۔ ان پر توجہ دو۔ اپنی اولادوں اور آنے والی نسل پر توجہ دو ۔ انکی تربیت کر دو وہ خود ہی نظام بدل لیں گے اور ترقی کی شاہراہ کی تعمیر سمیت اس پر چلنا بھی سیکھ لیں گے ۔ آپ بس انکو بنیادی اسباق ایمانداری سے پڑھا دو۔
دیکھو جہاں تربیت نہیں ہوتی وہاں سچ کو بے آبرو کرنا ایک پر لطف شغل ہوتا ہے۔ تم لوگ ذرا اس نوجوان کی priorities کو ہی دیکھ لو ۔ لائیبریری میں جاؤ تو وہاں سوائے ویرانی کے کچھ نہیں ۔ اور اگر کوئی نوجوان مل جائے تو یاتو وہ پیپر کی تیاری کی غرض سے آیا ہوگا یا پھر ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوا کی خاطر۔
 دوستو ، ہم جولیوں چپ کر کے بس تعلیمی اداروں میں انقلاب برپا کردو۔ تعلیمی سٹرکچر بدلو ، نوجوانوں کو نوکری کی خاطر پڑھائی کی بجائے پڑھائی کی خاطر نوکری کا سبق دو ۔ اپنے تعلیمی اداروں سے گریڈز کی آمریت کا خاتمہ کرکے تربیت کی جمہوریت قائم کرو۔ معاملات ٹھیک ہوتے جائیں گے۔ اور ہاں ویسے مجھے یقین ہے کہ اس مملکت پر چھائے کالے بادلوں کا وقت ختم ہو گیا ہے اب روشنی کا ٹائم ہے۔ اور یہ سب جمہوریت کے قائم پر ہی ممکن ہے۔
 میں نے لمبی آہ بھری ، باتوں کو پلے باندھا اور روزمرہ کی زندگی میں مشغول ہو گیا ۔
*****************

Comments