( میں اور میرا لاحاصل)
بقلم: اسامہ احمد
اپنی
نادانیوں سے اقتباس :
صاحب
تماشا ختم ہو گیا ہے آپ چلیں جائے ۔۔۔۔۔
پر
میں تو آپ کو جاننے آیا ہوں
ہاہاہاہاہاہا
بھوک کے علاؤہ تم نے جانا ہی کیا ہے جو تو نئی لذت سے آشنا ہو سکے،۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتا
نہیں کہ تم لوگ دن رات خود کو بیچ رہے ہو اور بدلے میں کیا خرید رہے ہو صرف اذیت؟
تمہارے کپڑے سے لے کر کھانے تک دوسروں کی غلامی کا صِلہ ہیں کہ دفتر میں یہ پہنا
جاتا ہے، مدرسے میں یہ پہنا جاتا ہے، شادی میں یہ پہنا جاتا ہے، گھر میں یہ پہنا
جاتا ہے، اور لوگوں کے سامنے یوں چلا جاتا ہے، مہمانوں میں ایسا بیٹھا جاتا ہے اور
روپے کے لیے آٹھ آٹھ گھنٹے خود کو کرسی کا پابند بنانا پڑتا ہے اور یہ وہ عذاب ہے
جو ہم اپنی مرضی سے جھیلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
خضور
آپ بھی تو بھوک کے لیے ہی خاک چھانتے ہیں ؟
ہاں
صرف کھانے کے لیے چند گھڑیاں کہیں ٹہر کے جھوٹ بول لیتے ہیں اور واحد انسان میں صرف یہی ایک عیب ہے باقی تو وہ
محبت ہے کہ جو زہر کو بھی سینے سے لگا لیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو
آپ یہ زہر بیچ کے روپیا کیوں نہیں خریدتے ان سانپوں کے زہر کو گھوڑوں کے خون میں
شامل کیا جاتا ہے اور پھر اسی گندے خون کو لے کر دوائیاں بنائی جاتی ہیں اور یہ
زہر ڈالروں میں بِکتا ہے؟
صاحب
تم کو بھی ہمارے ہاتھوں میں سانپ ہی نظر آتا ہے ہم نہیں "جیسے ڈگریوں میں آپ
لوگوں کو اچھا مستقبل نظر آتا ہے" دراصل آپ اس کھیل کو سمجھے نہیں کہ زندگیوں
میں زہر کا ہونا بھی عینِ فطرت ہے، اور زہر سے پل پل مرنا بھی عینِ فطرت ہے، اور
اس زہر سے بچنا بھی عینِ فطرت ہے، اور یہی سب کچھ زندگی بھی ہے ۔۔۔۔۔۔
ہممم
اچھا! تو یہ کَرب میں آنکھیں زرد کر لینا اور اپنی ہڈیوں سے ماس کھینچ لینا اور
چہرے پہ دھول کی تہہ میں حسن تلاشنا اور اس کمزور بدن کو گھسیٹ کر گلیوں میں رگڑنے
سے بھلا کیا حاصل ؟
ہاہاہاہاہاہا
اپنا خدا ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
تو
کیا ملا وہ ؟
وہ
تو موجود ہی نہیں ملے گا کیسے ؟
تو
پھر کیا پایا ۔۔۔۔۔۔۔
ہنر
پایا ہے صاحب ! جیسے اس حیوان کو اپنے قالب میں ڈھال لیا ہے اور یہ ایسے ہی ہے
جیسے صوفی خدمت کو خدا سمجھتا ہے اور مُلا کتابوں کے حوالوں کو سچ مانتا ہے اور
امیر پیسا خرچ کرنے کو حقیقت مان لیتا ہے اور غریب دعاؤں میں اس کو حاصل کر لیتا
ہے اور عام بندا منبر پہ بیٹھے لفظوں کو عقیدت تسلیم کر لیتا ہے بس ایسے ہی ہم
اطمینان کو خدا سے جوڑ لیتے ہیں کہ اور کچھ بھی نہیں چاہیے بس ہمیں ہماری منزل مل
گئی اب اسی میں رہنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی
آپ کا مطلب ہے کہ خدا ہے ہی نہیں ؟
نا
صاحب ایسا مت کہیے ورنہ بتوں میں سے خدا کا یقین نکال دیں تو خدا تھوڑا چھوٹا پڑ
جائے گا وہ تو پتھر میں بھی اسی طرح موجود ہے کہ جیسے آپ کے دماغوں میں اس کا ایک
گھر ہے، ایک عقیدہ ہے، یا کسی مصیبت زادہ کے ٹوٹے ہوئے دل میں ہے اور یہ لفظ دل
بھی سب سے عزیز، سب سے قریب، اور سب سے مقدس چیز کے لیے بولا جاتا ہے اور یہ پتھر،
یہ پیر، یہ کتابیں، اور یہ خدمت، یہ سب لوگوں کے دل ہی تو ہیں اور قرآن میں بھی
شاہ رگ کا سمبل ہی ملتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment