Hum khas hain article by Romana Gondal


ہم خاص ہیں
رومانہ گوندل
مشہور معاشیاتدان رابنز کا معاشیات کے بارے میں کہنا ہے کہ انسان کے پاس محدود ذرائع ہیں اور خواہشات لا محدود ۔ اسے محدود ذرائع سے لا محدود خواہشات پوری کرنی ہوتی ہیں اس لیے انتخاب کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے اور اکنامکس میں یہی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ اگر خواہشات کی طرح وسائل بھی لا محدود ہوں تو کوئی معاشی مسئلہ نہیں ہو گا اور نہ ہی سوچ و بچار کی ضرورت پڑے گی۔
یعنی معاشی مسائل تین چیزوں کے گرد گھومتے ہیں وسائل، خواہشات اور انتخاب۔ انسان کو اپنے وسائل میں سب سے اہم خواہشات پوری کرنی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اپنے مقرر بجٹ سے آ گے نہیں جاسکتا اس لیے کچھ خواہشات ترک کرنی پڑتی ہیں اور اگر کوئی خواہشیں ترک نہ کرنا چاہے تو پھر اسے اپنے وسائل میں اضافہ کرنا ہو گا ۔ لیکن غور کیا جائے تو یہ مسئلہ صرف معاشی نہیں ہوتا بلکہ پوری انسانی زندگی در اصل اسی اصول کے گرد گھو م رہی ہے ۔ انسان کی خوہشات لا محدود ہیں لیکن کچھ حدود ہوتی ہیں جن کی پابندی کرنی پڑتی ہے ۔ ، جن سے آگے نکلنا غلط ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک صحیح اور غلط کی بحث شروع ہوجاتی ہے ۔ معاشرے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی کام ایک وقت میں بہت سے لوگ کر رہے ہوتے ہیں لیکن کسی کے لیے وہ غلط ہوتا ہے اور کسی کے لیے صحیح ۔ کیونکہ دراصل صحیح اور غلط کا تعین ہر انسان کے وقت اور حالات پہ ہوتا ہے ۔
جھو ٹ بولنا انتہائی غلط ہے لیکن کبھی کبھی مصلحت ہو جاتا ہے ۔ایک ہی بارڈ پہ آمنے سامنے لڑنے والے دو سپاہی کسی کے لیے ہیرو اور کسی کے لیے ویلن بن جاتے ہیں ۔ خطر ناک سے خطر ناک اوزار بھی ہر ہاتھ میں ایک سے نہیں رہتے ۔ چھری چاقو رہزن کے پاس ہو تو ظلم ہے وہ جتنی بے باکی سے چلائے اتنا ہی سفاک اور ظالم کہلاتا ہے لیکن وہی چھری ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہو تو وہ جتنی مہارت اور بے باکی سے چلا لے اتنا ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے ۔ ذبان کا استعمال بھی موقع محل کے مطابق ہونا چاہیے ۔ جہاں خاموشی کو عبادت اور نیکی کہا گیا ہے ، وہی کچھ مقامات پہ بول دینا صدقہ اور جہاد ہے ۔ مجرم کو اس کے کفر کردا ر تک پہنچنا بہترین عمل ہے لیکن کسی کو سزا دینے کے لیے قاضی کی کرسی تک پہنچنا ضروری ہے کیونکہ قاضی سزا دے تو وہ منصف ہے اور کوئی راہ چلتا یہ کام کرنے لگے تو یہ ایک اور جرم بن جاتا ہے ۔ جہاں چھپ کر نیکی کرنا بہترین ہے وہی کبھی اعلانیہ کرنا بھی اچھا ہے ۔ کسی کے عیب پہ پردہ ڈال دینا اگر نیکی ہے تو کبھی مجرم کے خلاف کھل کے گواہی دینا ثواب ہے۔ حتی کہ قتل جیسا قبیح جرم بھی بعض حالات میں جائز ہو جاتا ہے ۔
معاشرتی طور پر بھی کامیابی اور نا کامی کا معیار کلاس اور سٹیس کے ساتھ بدل جاتا ہے ۔ کوئی انسان اگر اپنی کلاس کے مخصوص کامیابی کے معیار پہ پورا نہیں اتر رہا تو لوگ اس کی صحیح بات کو بھی غلط کہنے لگتے ہیں ، ہر کوئی اپنے مفید مشورے سے نوازنا ضروری سمجھتا ہے لیکن اگر انسان اپنی کامیابی ثابت کر دے تو لوگ اس کی غلط باتوں سے بھی اختلاف نہیں کرتے ، اس پہ بلا وجہ کی تنقید تو ختم ہو ہی جاتی ہے، ساتھ بلا وجہ کی خوشامد بھی شروع ہوجاتی ہے ۔
ہرانسان کی اپنی پسند نا پسند ہوتی ہے ، رائے ہوتی ہے ، اسے معاشرے میں رائج رواج سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس رائے کو لوگوں سے تسلیم کروانے کے لیے کوئی مقام چاہیے ہوتا ہے ورنہ ایک سوال فورا کیا جاتا ہے کہ تم میں کیا خاص بات ہے جو تمہاری بات مانی جائے ۔ کبھی کبھی یہ سوال انسان کو ایک دم سے خاموش ہونے پہ مجبو ر بھی کر دیتا ہے کیونکہ ایسے میں انسان واقعی یہ سوچتا ہے کہ اس کے پاس اختلاف کرنے کے لیے کوئی ایسی انفرادیت اور مقام نہیں ہے جس کی بنیاد پہ وہ دوسروں کو اپنی بات ماننے پہ مجبور کر سکے ۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری رائے کہ معتبر سمجھ جائے ، اسے اہمیت دی لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی بھیڑ میں کھڑے رہتے ہیں کہ لوگ رک کر راستہ دیں گئے تو ہم آگے پہنچ کے لیڈر بن جائیں گئے لیکن کامیابی کا اصول یہ نہیں ہے کامیابی کے لیے ہمیں آگے بڑھنا ہے تو دوسروں سے تیز چلنا ہو گا ، بھیڑ میں ٹھوکریں بھی لگیں گی۔ دھکے بھی لگے ہیں لیکن ان سب سے آگے نکل کے ہی تو کامیاب ہو سکتے ہیں اور کسی مقام تک پہنچنے تک یہ سب برداشت کرنا پڑے گا ، ہم خاص ہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا ۔ کیونکہ ذبان سے دلائل دے کر آپ ان لوگوں کو قائل نہیں کر سکتے جن کا کام صرف دوسروں پہ تبصرے کرنا ہے ۔ اس لیے اس کام پہ اپنی صلاحیتیں اور وقت ضائع نہ کریں بلکہ خاموشی سے کام کرتے رہیں کہ وقت آپ کی قابلیت خود ثابت کر دے اور پھر جو لوگ تنقید کرتے ہیں وہ خود بخود تعریف کرنے لگیں گئے۔
تند ہی باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

********************

Comments