زمانہ زنجیر ایام ہے
راقم ظہیر آفتاب
زمانہ زنجیر ایام ہے دن اور رات کے الٹ پھیر کا نام ھے۔
دن کے اختتام پر سورج مغرب میں سر بسجود ھوتا ہے۔رات جب
اپنے شانوں پر سیاہ چادر اوڑھتی ہے تو فلکی دنیا میں روشنیاں اور رونقیں لگ جاتی ہیں۔
رات کے گھپ اندھیرے میں تارے
چمکنے لگتے ہیں آسماں دب اکبر اور کہکشاؤں سے رات بھر جگ مگ کرتا رھتا ہے۔
پھر جب دن کی شروعات ہوتی ہے تو وہ منظر بھی دیدنی ہوتا
ہے۔چڑھتے سورج کو دیکھ کر اک نئ دنیا آباد ہوجاتی ہے اک نیا زمانہ ابتدا پکڑتا ہے پو
پھوٹتے ہی کوکبی چمک پردہ خفا میں چلی جاتی
ھے۔
مشرق سے ابھرتے ہوۓ
سورج کی چمکتی جبیں سے نکلنے والی ھلکی ھلکی کرنیں اطراف عالم میں سفید روشنی بکھیر
دیتی ہیں۔پہاڑیوں کی کناریوں سے سورج سر نکالتا ہے تو ساری ظلمتیں چھٹ جاتیں ہیں۔سورج
جب پورے وجود سے چرخ نیلوفریں پر طلوع ھوتا ہے تو ھر شے میں حرارت انگڑائیاں لینے لگتی
ہے۔رات درختوں کے پتوں پر جو اوس پڑتی ہے صبح شمسی درخشانی سے وہ شبنمی قطرے یوں چمکتے
ہیں جیسے شفق کی سرخی میں ستارے جھلملا رھے
ہوں۔شبنم سے ڈھکی پھولوں کی پتیوں پر جب سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو یوں لگتا ھے جیسے
پھول باوضو محو تسبیح ہو۔
بادِ صبا کا گزر جب ھری ھری
گھاس پر سے ہوتا ھے تو تروتازہ گھاس کی سرسراھٹ کانوں میں رس گھولتی ہے آنکھوں کو طراوت
ملتی ہے نظر خیرہ ہوتی ہے۔
پھر سورج آسمان عالم پر پوری آب وتاب سے اپنی منزل کی طرف
خراماں خراماں چلتا جاتاہے ساۓ
بھی مخالف سمت اس کےتعاقب میں چلنے لگتے ہیں۔
یونہی قدرت کی کرشمہ سازیاں،حسن آفرینیاں اورفطرت کی دلربا
رعنائیاں مشتاقان دید و نظارہ جمال کے دلوں
میں کشش پیدا کرتیں ہیں۔
پس انسان بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رھا ھے وہی خدا ہے وھی خدا
ھے۔
Comments
Post a Comment