*مُکالمے*
راقم تحریر :ظہیر آفتاب
وادی سون
گلریزایک دیہاتی لڑکاھے ندیم اس کا جگری دوست ھے جو ان دنوں یونیورسٹی میں انجینئرنگ کر رھا ھے
وہ گاؤں آیا تو گلریز اس سے
ملنے اس کے گھرگیا. معانقہ کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا.
گلریز
یار
تم یونیورسٹی سے چھٹیاں بہت کرتے ہو
اکثر گھومتے پھرتے رھتے ہو.پڑھائ
میں خلل نہیں آتا کیا؟اور امتحان میں کیسے کامیاب ھوگےتم؟
ندیم
دبی
ھنسی سے اس کے ھاتھ پر ھاتھ مارتے ہوۓ
بولا
ارے
یار تو بھی نا .
تیرے
کو پتہ ھے نا
وہ یونیورسٹی کے دو پروفیسر
اپنے دوست ھیں اکثرچاۓ
مل بیٹھ پیتے ہیں
بڑا دوستانہ ماحول ھےیار۔
جب
تک وہ یونیورسٹی میں ہیں .
ھمیں
کاہے کی فکر ویرے۔
تیرے
ویر کی ان سے اتنی علیک سلیک ھے کہ حاضری بھی
پوری ھوجاتی ھے اور امتحان کی جہاں تک بات ھے تو جو مضمون وہ پڑھاتے ہیں ان میں تو
90/نمبر پکے
اور دیگر مضمون بھی ان ھی
کی وساطت سے اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتےہیں۔
سب
چلتا ھے جگر.
گلریز بڑی حیرانی سے
یار
پروفیسر ایسے بھی
ھوتے ہیں کیا ؟
اب
کی بار ندیم نےقہقہ
لگاتے
ہوۓ کہا.
ابے
یار!
یہ
تو کچھ بھی نہیں .
کچھ
پروفیسر تو اپنی سٹوڈنٹ لڑکیوں سے چکر چلا کے انہیں سے شادی بھی کرلیتے ہیں.
اس
کی باتیں گویا گلریز کے کانوں پہ ھتھوڑے برسا رھی تھیں.
دیہاتی
ماحول کے مطابق تو یہ سب واہیات باتیں تھیں
وہ
اس کوفت کو مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا
اس
نے واپسی کےلیے اجازت لی ھے اور بوجھل دل سے
گھر آگیا.
(واہ نظام تعلیم)
گھر
پہنچا تو ماں جی کی طبیعت ناساز تھی تو بولیں
.
پتر
اپنا "سکوٹر" نکال اور شہر چلتے ہیں
ھسپتال کسی ڈاکٹر سے چیک اپ کرا کے
دوا لے آتے ہیں.
وہ
شہر پہنچے ہی تھے کہ ھسپتال کے عقبی چوک میں ٹریفک پولیس والے موٹرسائکل سواروں کو
روک کرپوچھ تاج کر رھے تھے.
اتنے
میں ایک خوش پوش جوان "مستی ڈرائیونگ" کرتے نادانستہ ان کے ھتھے چڑھ گیا .
کاغذات
کی عدم دستیابی پر 300چلان تھا
پولیس والے نے جیسے ھی اس
کا نام چلان کاپی پہ لکھنے کی کوشش کی اس نے جھٹ سے 100روپے نکالے اور پولیس والے کی
جیب میں ڈال دیے ھنس کے سلام دیا اور چلتا بنا.
(واہ قانونی کاروائ)
خیر
ھسپتال پہنچے قطار بندھی تھی سبھی لوگ اپنے نمبر سے پرچی بنوا رھے تھے
دریں
اثنا ایک سفید پوش چاچا اونچی اونچی باتیں کرتا قطار کی پرلی جانب سے آیا اور کہنے
لگا
او
بھتریا دو پرچیاں بنا دے
ھک
حلیم خاتوں دی تے دوئ فلک شیرے دی
اس
نے بھی اس چاچا سے دعا سلام کی اور اس کے پورے
خاندان کی ترتیب وار خیریت معلوم کرنے لگا وہ اپنی خوش گپیوں میں مگن تھے کہ
قطار
میں کھڑی عوام تنگ ھونے لگی ایک بندے نے ھمت کی اور بولا
*اے
جہڑے موھراں آۓ کھلے ، ان مڑ گھر لگھ ونجن، تسی چاچا بھتریا گپاں
مار لو *..
حیا
کرو یار کجھ .
خیر
کافی دیر بعد ڈاکٹر صاحب سے چیک ایپ کرانے
کا وقت آیا
ڈاکٹر
نے چیک ایپ کرنا شروع کیا ہی تھا کہ ان کے
موبائل کی گھنٹی "ٹراں ٹراں"کرنے لگ گئ۔
کسی
جان پہچان والے کا فون تھا
ڈاکٹر صاحب نےاس سے پرسکون طویل گپ شپ کی اور رات ملنے کے بعد باقی
کی رھتی کہانی مکمل کرنے کا بول کے فون کاٹ دیا.
چونکہ مریضوں کی ایک لمبی
قطار باھر انتظار میں بیٹھی تھی
اس لیےجلدی جلدی چیک ایپ کیا
کچھ رسمی تشخیصی باتیں پوچھیں آنکھوں کی پتلیاں اٹھاۓ
جھانکا لمبے سانس لینے کی آواز چیک کی کھانسی کرنے کو بولا .آاااااا کی آواز سے گلہ
چیک کیا ..
جب
کہ ماں جی کو معدے کا مسئلہ .
خیر
مریض چاھے کسی بھی مرض کا شکار ھو تشخیص کا یہی پرانا طریقہ ابھی تک رائج ھے
بعد
ازاں اپنی آڑی ترچھی لکھائ میں کچھ دوائیں لکھ دیں۔
8
میں سے 3ھسپتال سے ملیں
باقی رسمی معذرت سے باھر سٹور
سے لےلیں کہہ کے ٹال دیا گیا۔
خیر
وہ دوائیں پکڑیں.
بدبو
سی محسوس ہوئ
گولیوں کا پتا الٹ کے دیکھا
تو Expire date گزرے
بھی مہینہ ھوچکا تھا .وہ تو خیر وہیں پھینکی اور دو چار ان کو سنا بھی دیں
ھسپتال
سے نلکنے لگے تو دیکھا ایمرجنسی وارڈ میں ایک مریض تشویشناک صورتحال میں ھے
پتہ چلا صبح سے ادھر کوئ ڈاکٹر ھے ہی نہیں۔تنگ آکر اس مریض کے بیٹے نے اک ڈاکٹر
کو آواز دی کہ پلیز ابو جی کو دیکھیں
ڈاکٹر
نے حسب معمول دیکھ کے کہا
اس
دا علاج اتھے نہیں ھونا انوں لاھور لے جاؤ
(واہ
میڈیکل سسٹم) گویا
*بربادگلستاں
کرنے کو بس ایک ھی الو کافی ھے
ھر
شاخ پہ الو بیٹھا ھے انجام گلستاں کیا ھوگا*
باھرسٹور
سے دوائ لی اور گھر پہنچ گۓ.
ذھنی
کوفت دور کرنے کےلیے
دوست
کی باتوں سے لے کر دوائ تک کی ساری باتیں بابا جی کو سنا دیں
.
بابا
جی اس کی باتیں سنتے رھے پھر اک ٹھنڈی آہ بھری اور
بولے
پتر
ایک جٹ ذمیندار
بندہ
تھا اس کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام اس نے شودھی
رکھا
ہوا تھا.اس نے جب بچہ جنا تو اس نے اس کا نام
*مُکالہ* رکھ دیا کچھ دنوں بعد وہ مرگیا تو اس
جٹ سے افسوس کرنے کو اس کا ایک دوست آیا۔ چونکہ وہ اس بچے"مُکالے"
کے مرنے پر بہت دکھی تھا۔
تو
اس نےدوست کا غم ھلکا کرنے کے لیے کہا ۔
او
یار پریشان نہ تھی شودھی جینی تے مُکالے بہوں
اگر
شودھی زندہ ھےتو مُکالے اور بھی بہت مل جائیں گے.
لہذا
پریشان مت ھو.
پتر
ھمارے معاشرے کا بھی وھی حال ھے
*جب
تک اداروں کے سربراہ شودھے اور نااھل ترین لوگ ہوں گے اور مسندوں کی صدارت پر جاھل
اور جہل پسند لوگ ہوں گے تب تک ھر جگہ مکالے ہی مکالے ہوں گے
***************************
Comments
Post a Comment