"تحفہ"
( عفراء احمد ملک)
"حضرت یوسف ؑ کی آزمائشوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ انھیں ایک
نا محرم نے اس وقت گناہ کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جب انکے پاس کوئی موجود نہیں
تھا۔کوئی سے مراد یہ کہ وہ اس وقت اپنے علاقے سے کوسوں دور ایک انجان جگہ پر موجود
تھے جہاں انکے والد ، انکے بھائی یا انکے
دوست احباب میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ اسکا مطلب ہے کہ انسان کے گناہ ثواب
میں اسکے اپنوں کا بھی حصّہ ہوتا ہے۔آپ جب تک اپنے لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تب تک
آپ تنہائی کے گناہوں سے بچے رهتے ہیں۔سبحان اللہ۔ قرآن نے آج کے حالات کتنے سال پہلے بیان فرما دئے تھے۔پھر بھی لوگ
اسے اولڈ فیشن کہتے ہیں۔ آج کل ہم اپنے بچوں کو ہوسٹلز میں بھیج کر بری الذمہ ہو
جاتے ہیں۔پھر جب وہ خاص طور پر لڑکیاں جال میں پھنس جاتی ہیں تو انھیں غیرت کے نام
پر قتل کرتے پھرتے ہیں "۔ مدرسہ کی بلڈنگ کے ایک عظیم الشان آڈیٹوریم نما کمرے میں مائک پر گونجتی سوره یوسف کی تفسیر
پورے آداب و احترام سے جاری تھی۔
وہ
دم سادھے بھیگے چہرے کے ساتھ معلمہ کی
باتوں کو سن رہی تھی۔ اسکی زندگی ایک ادھوری کہانی کی طرح اسکے سامنے چلنا شروع ہو
گئی۔ ہاں یہ اسکی اپنی کہانی ہی تو تھی بس کچھ ہی تو فرق تھا۔
------------------
"اشنا تم نے اپنا سامان پورا رکھ لیا ہے نا ؟ " گھر سے
نکلتے ہوے زینب نے اسے پیچھے سے آواز دی۔
"جی امی جی۔اب مجھے 3 سال تو ہو گے ہیں ہوسٹل میں۔ بلکہ اب تو
میں واپس بھی آنے والی ہوں۔" اس نے ہنس کر ماں کو گلے لگایا۔
" ہاں ہاں اب تو تو بڑی ہو گئی ہے نا۔" ماں نے بھی ہنس
کر ہلکا سا گال پر تھپڑ رسید کیا۔
"اب ماں بیٹی کا پیار ختم ہو گیا ہو تو چلیں ؟ ہم پہلے ہی لیٹ
ہیں۔گاڑی نکل جائے گی۔" سرمد صاحب نے جلدی مچاتے ہوے کہا-
"جی اچھا بابا"- وہ دونوں ہنسی.
-----------------
"سنو"۔ اسکا موبائل روشن ہوا۔
"جی"۔ وہ فورا جواب دینے کو لپکی۔
لپکی۔
"مجھے تم سے ملنا ہے۔ ایک بار مل لو نا پلیز"۔ اسکے لہجے
میں التجا تھی۔
"کوئی کام ہے؟" پوچھا گیا۔
"نہیں ۔بس یونہی تمہیں دیکھنے کو دل کر رہا ہے۔" افسردہ
سا کہا گیا۔
"آپ جانتے ہیں میں نہیں ملوں گی۔پھر کیوں؟" اس نے سرد
لہجہ اپنایا۔ لیکن اندر کہیں دل ابھی بھی ضد کر رہا تھا۔ایک بار کا کہہ رہا تھا۔بس
ایک بار کی ضد ۔
"اچھا سوری نا۔ناراض تو نا ہو۔نہیں کہتا اب۔"فورا بات
سنبھالنا کوئی اس سے سیکھے۔
"اچھا۔" اس نے بات مکمّل کی۔
"کیا میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں؟" اس نے اگلا مسیج کیا۔
"نہیں"۔ جواب فورا دیا گیا تھا۔
"کیوں ؟" جواب جانتے ہوے بھی اس نے سوال کیا۔
"کیوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔" اس نے خوبصورتی سے اسے
ٹال دیا۔
"سہی "۔ جواب مختصر تھا۔
انکی
کہانی آخری سال کی مرہون منت تھی۔لیکن وہ ایک دوسرے کو سمجھتے ایسے تھے جسی صدیوں
سے جانتے ہوں۔قدرت بھی کبھی کبھی عجیب ڈھنگ دیکھا دیتی ہے۔
--------------------
"بابا وہ میری کلاس میں پڑھتا ہے۔میں جانتی ہوں اسے۔اور سب سے
بڑھ کر وہ مجھے پسند بھی ہے۔"۔ اشنا نے تحمل سے سرمد صاحب کو سمجھانے کی کوشش
کی۔جو اس رشتے کے خلاف محاظ کھڑا کیے ہوے تھے۔
"ہم نے تمہیں وہاں پڑھنے کے لئے بھیجا تھا۔عشق معشوقی کرنے یا
اپنے لئے لڑکے پسند کرنے نہیں۔اور یہ سب کب سے چل رہا ہے؟"۔ انہوں نے تعیش
میں پوچھا۔
"میں نے کوئی عشق نہیں چلایا بابا۔اور یہ تو ابھی اسی آخری
سال کی بات ہے۔اگر مجھے کچھ کرنا ہوتا تو ڈائریکٹ آپکو آ کر بتاتی؟" اس نے
دکھ سے کہا۔
"مجھے تم پہ کوئی بھروسہ نہیں"۔ انھوں نے منہ پھیرتے ہوے
کہا۔
"مجھ پر نہیں کم از کم اپنی تربیت پر تو بھروسہ رکھیں"۔
اس نے مسکراتے ہوے کہا۔اور مڑ کر تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوے اپنے کمرے میں گھس
گئی۔
سرمد
صاحب اسکی پشت دیکھتے ہوے آہ بھر رہے تھے۔ زینب چپ چاپ خاموش تماشائی کی طرح ان
دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
------------------
"ہم نے کچھ انہونی تو نہیں کی نا "۔ وہ سر جھکاے ماں باپ
کی عدالت میں بیٹھی اپنے فیصلے کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر فیصلہ تو ہو چکا تھا اور
ایک فرما بردار اولاد کی طرح اسے ماننا ہی تھا۔ اسکے ساتھ ہی احد کی زندگی بھی جڑی
تھی لیکن اس وقت کسی کو پرواہ نہیں تھی۔
"تم ماں باپ کے بغیر ذلیل و خور ہو جاؤ گی"۔ سرمد صاحب
بولے۔اس کی آنکھوں کے سامنے احد کا مسکراتا چہرہ آیا جو ہمیشہ کہتا تھا تم میرے
ساتھ رہنا باقی میں سنبھال لوں گا۔
"ماں باپ ہی اس دنیا میں سب کچھ ہوتے ہیں۔وہ نا ہوں تو دنیا
میں کہیں چھاؤں نا ملے"۔ سرمد صاحب نے جتایا ۔ اسکے کانوں میں احد کے الفاظ
پھر سے گونجے جس نے کہا تھا دنیا میں سب مل جاتا ہے صرف رب نہیں ملتا۔
یہ
یاد آتے ہی وو بے ساختہ پکار اٹھی
"یا اللہ ربی"۔ اور سرمد صاحب اور زینب کو حیران پریشان
چھوڑتے ہوے وہ وضو کرنے کو دوڑی۔
--------------------
"کتنی خوبصورت بات ہے نا اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ پیار سب سے
کرو ، برانڈز کو پسند کرو یا میک اپ کرو بس سب سے اوپر مجھے رکھو۔ہر شے اور ہر
انسان کی محبّت سے پہلے مجھے رکھنا ہے۔بس۔ہم انسان ہیں۔ہم بھی برداشت نہیں کر
سکتے۔وہ تو پھر رب ہے نا۔وہ کیسے کسی کو خود سے اوپر برداشت کرے؟لیکن اس نے منع
بھی نہیں کیا کے میرے علاوہ کسی اور شے یا انسان سے پیار نا کرو۔کرو لیکن مجھ سے
کم۔میں خود تمہیں وہ عطا ر دوں گا۔اور اگر ہم اللہ کی نہیں سنتے یا جب ہم اسکی جگا
کسی اور کو سب سے اوپر رکھتے ہیں تو اللہ ہم سے اس شے یا انسان کو چین لیتا
ہے۔اپنی محبّتوں کو اللہ کی محبّت سے کم رکھیں وہ آپکو وہ عطا کرے گا جو آپکی چاہت
ہے۔"
اسکے
موبائل پر مشہور عالمہ سوره بقرہ کی آخری آیات کی تفسیر کر رہی تھیں۔اسکا چہرہ
آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔دل نے دعا کی کہ یا اللہ میں نے اسے تجھ سے بعد میں رکھا
تھا نا۔مجھے وہ عطا کر دے۔
"استغفراللہ یہ تم کیا کر رہی ہو اشنا۔اپنی محبّت ، اپنی محنت
کا صلہ مانگ رہی ہو۔وہ رب ہے تمہارا وو بہترین جانتا ہے"۔ وہ ایک جھٹکے سے
اٹھی۔اور آنسو پوچھتے ہوے خود کو ملامت کی۔
"معاف کر دیں اللہ ۔انسان ہوں کبھی کبھی شیطان حاوی ہو جاتا
ہے۔" اس نے جلدی سے توبہ کی۔
--------------------
"احد کالنگ"۔ فون کی وائبریشن پر وہ سوره یوسف کے دور سے
واپس لوٹی۔
"آ رہی ہوں۔بس تھوڑی دیر اور۔" اس نے جلدی سے مسیج
لکھا۔جانتی تھی وہ سمجھ جائے گا جیسے اللہ سمجھ گیا تھا اسکی بات اور اسے احد عطا
کر دیا تھا۔
"ہر ایک کی زندگی میں یوسف ؑ کا دور آتا ضرور ہے بس یہ ہم پہ
ہوتا ہے کہ ہم اسے کس طرح گزارنا پسند کرتے ہیں۔کچھ لوگ اسکے بدلے زندگی پسند کر
لیتے ہیں اور کچھ لوگ آخرت۔لیکن ایک بات یاد رکھئے گا جو آخرت چنتے ہیں انھیں دنیا
تحفے میں دے دی جاتی ہے۔اسکے ساتھ ہی آج کا ہمارا سبق مکمّل ہوا۔باقی کل انشاءللہ
۔چلیں اب دعا کر لیں" ۔ معلمہ نے لیکچر کا اختتام کیا اور وو بیگ اٹھاتی
دروازے کی طرف بڑھی جہاں رب کا حسین تحفہ اسکا منتظر تھا۔
--------------------
The End
Comments
Post a Comment