عنوان: نیت
تحریر: اقرأ حفیظ
تحریر: اقرأ حفیظ
ڈاکٹر عمارہ کا قلم سرعت
سے قرطاس پر الفاظ بکھیر رہا تھا ۔اس کی چشموں کے نیچے سے جھانکتی نگاہیں بھی پرچی
پر جمی ہوئی تھیں اور وہ محویت سے اپنے قریب پیشنٹ چئیر پر بیٹھی مریضہ کیلئے
تجویز کردہ دوائیوں کا نسخہ لکھ رہی تھیں ساتھ ہی ساتھ نگاہ اٹھا کر مریضہ کا چہرہ
دیکھتے ہوئے دوائی کے اوقات بیان کر رہی تھی۔وہ خاتون جو مریضہ کے ہمراہ آئی تھی
اعماق سے عمارہ کی ہر حرکت کوبغور ملاحظہ کر رہی تھی۔عمارہ کی آنکھیں نیند کو
زبردستی جھٹک رہی تھیں اور وہ چند لمحوں بعد سر سے پیشانی پر ڈھلکتے استراحت طلب
بالوں کو پیچھے کرتی اور ساتھ ساتھ مریضوں کا معائنہ کر رہی تھی۔اس کی آنکھوں کے
گرد کم خوابی کے نیم سیاہ حلقوں کو محض اس خاتون نے ہی پہچانا تھا جو اس کی کوئی
پرانی شناسا تھی اور ایک زمانے میں اس کی عمارہ سے اچھی علیک سلیک بھی تھی۔۔دراصل
دونوں نے میٹرک ایک ساتھ کیا تھا اور اسکے بعد نجانے وہ کہاں اور یہ کہاں؟مگر آج
وہ اپنی قریبی رشتہ دار کے ساتھ چیک اپ کیلئے کلینک آئی تو بارہ سال قبل کا منظر
نگاہوں میں گھوم گیا اور وہ خوش مزاج سی عمارہ اس کی یادوں کے دریچے وا کرنے لگی
جب ان سکھیوں کا سکول کے ایک طرف بنے گارڈن میں پیپل کے دخت کے نیچے ریسیس میں
مجمع ہوا کرتاتھا محفل خوب جمتی اور سب ایک دوسرے سے خوب مستی و مزاق کرتیں۔اس کے
لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی اور پھر حقیقت کی دنیا میں واپسی ہوئی تو اس عمارہ کے
چہرے پہ منتشر تکان نے اسے مغموم سا کر دیا اور اک ناآشنائی جو عمارہ کی آنکھوں
میں اس کے لیے تھی اسے متعجب کر گئی آخر اس نے اپنا تعارف کروایا تو عمارہ کے پژ
مردہ چہرے پر اک مسرت انگیز مسکان بکھری اور پھر اس سے مصافحہ کرتے ہوئے اس نے
دوبارہ ملاقات کا شیڈول بھی ترتیب دے دیا مگر وہ اک بار پھر حیرت سے ہکلائی کہ
ڈاکٹر صاحبہ کو ہفتے بھر میں محض اتوار کی شام کے چند گھنٹوں میں بھی بمشکل فرصت
ملتی اور وہ اس کے سراپے پر اک نگاہ ڈالتی اپنی رشتہ دار کے ہمراہ واپسی کی راہ
سنبھالنے لگی۔اگلی مریضہ کی آمد تک عمارہ نے آرام کرسی کی بیک سے پشت کو ٹکاکر
ٹانگیں سیدھی کرتے ہوئے انگڑائی لی تو انگ انگ نے تھکاوٹ کی گھنٹی بجائی۔کمربھی
درد سے دوہری ہو رہی تھی ۔وال کلاک دیکھتے ہوئے اس نے اطمینان کا دم بھرا اب اس کی
ٹائمنگ کے بیس منٹ باقی تھے۔اس کا بدن تھک کر چور ہورہاتھا مگر یہ اس کا جذبۂ
ایثار تھا جو وہ اپنی سرکاری نوکری فرض شناسی سے ادا کرنے کے بعد فوراً کلینک کی
راہ لیتی اور ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ بروقت اپنے مریضوں کیلئے کلینک میں موجود
نہ ہو۔مریضوں کا اک تانتا بندھا ہوتا اور گاہ گاہ تو وقت اس کی ڈیوٹی ٹائمنگ سے
اوپر بھی ہوجاتا اسی لیے تو دوسروں کی یہ مسیحاکو اپنی صحت کا خیال رکھنے کاوقت
بھی نہ ملتا۔دن بھر وہ کئی ہی تنگ دستوں کا مفت معائنہ کرتی اور اپنی بساط کے
مطابق ہر خدمت انجام دیتی تو اس کا مقصدمحض انسانیت سے محبت اور رضائے خداوندی کا
حصول تھا ۔وہ اپنی ذات میں انتہائی سنجیدہ تھی مگر اپنے مریضوں سے حتی المقدور ہنس
کے ملتی مگر جب دن کے اختتامی پہروں اس کی ہمت جواب دے چکتی تو کوئی اس کے چہرے کی
پس ماندگی کو بھی نہ گردان سکتا ۔اب کہ اس کی آج کی ٹائمنگ اختتام کو پہنچی تو اس
نے سکھ کا سانس لیا stepthoscopeکو اک جانب رکھ کر گھنٹی بجا کر اسسٹنٹ کو بلایا اور مریضوں کو روانہ
کرنے کا کہا کیونکہ وہ آج زائد وقت نہیں دے سکتی تھی۔بیگ اٹھا کر شانے سے لگایا
،سیل فون ہاتھ میں تھامے وہ وائٹ کوٹ میں حسبِ معمول روانہ ہوئی ۔مین بازار کی سڑ
کوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت تو خاصی تھی مگر اپنی کار تک پہنچ کر چابی گھما کر
گاڑی کا دروازہ کھولتے اس نے اپنی اس شناسا کی آواز سن لی تھی ’’تم نے دیکھی میری
دوست عمارہ بارہ سال پہلے کیسی شوخ و چنچل سی ہوا کرتی تھی اور آج اس کے وجود میں
مجھے اک کرب نظر آیا بہت ہی بدلاؤ آچکاہے اس کے مزاج میں بھی اور روپ میں بھی بھلا
آج کل بھی کہیں اس قدر فرض شناس اور محنتی ڈاکٹرہوتے ہیں۔‘‘یہ الفاظ گویا اس کی
تمام تر مشقت کا پل بھر میں مداوا کر جاتے مگر اگلے ہی لمحے اس کا بدن سن پڑنے
لگا’’ارے چھوڑو بھئی کوئی فرض شناسی نہیں ہے یہ ساری مشقتیں بس پیسے کی ہوس کی
غلام ہیں سارا دن مریضوں کا قصاب کی طرح گوشت کاٹنے کے بعد اگر ایسی حالت نہیں
ہوگی تو اور کیا ہوگا حرام حلال کا امتیاز تک نہیں انھیں بس پیسے کے پیچھے کتوں کی
طرح بھاگتے رہتے ہیں ورنہ کون کہتا ہے انھیں دن بھر کا چین برباد کرنے کو‘‘یہ کوئی
اجنبی عورت تھی جس کے الفاظ اسے چبھے تھے کس سفاکی سے اس نے یہ سب کہہ دیا تھا جب
کہ وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔وہ ایک گھڑی کو پلٹی کہ اس خاتون کو اتنا جواب تو دے
دے’’بہن کسی کی نیک نیتی کو اگر سراہ نہیں سکتیں تو کم از کم زبان کو لگام تو دے
سکتی ہیں نا‘‘مگر پھر اس کے قدم رکے وہ تو مسیحا تھی نا اسے صفائی دینے کی ضرورت
نہیں تھی۔ایسے ہی چند لوگ ہمارے معاشرے میں بھی ہیں جو کسی ایک کی غلطی پر سب کو
گنہگاری کا لیبل لگا دیتے ہیں جبکہ انھیں کچھ پتہ بھی نہیں ہوتااورنیکیوں کا اجر
تو اللہ پاک دیتے ہیں کوئی انسان نہیں ۔’’کوئی نہیں عمارہ جانے دو....ایک بات تو
یہ کہ اسے تمھاری نیت پتہ نہیں ہے اور دوسرا باتیں کرنا کونسا مشکل کام ہے اگر
ایسے ہی انھیں سکون ملتا ہے تو بارہا ملے میرا اجر تو میرے رب کے پاس ہے نا‘‘ضمیر
کی آواز پر وہ مسکرائی اور بھر پور شدت سے مسکراتے ہوئے چابی گھما کر اس نے کار کا
دروازہ کھولا اور اس میں سوار ہوکر گاڑی اسٹارٹ کر لی۔
***************
۔۔۔۔اختتام۔۔۔۔
۔۔۔۔اختتام۔۔۔۔
Comments
Post a Comment