کردار
انسان کیسا بھی کیوں نہ ھو ۔ ہمیشہ اس کے دو کردار ھوتے
ہیں۔ایک ظاہراور دوسرا باطن ۔
اسی لیے تو ہمیں ظاہر اور باطن دونوں کی جان پڑتال کے بعد
ہی کسی پہ کامل ایمان ہونا چاہئے۔دراصل انسان کا کردار ان دونوں عناصر پر منحصر
ھوتاہے۔لیکن ہم انسان کا ہمیشہ ایک ہی رخ دیکھتے ھیں اور اسی پہ ایمان لے آتے ہیں۔چاہے
وہ اچھاٸ
ھو یا پھر براہی ۔اور یہ ہی ہماری غلطی یا بچپنا ہماری ساری زندگی کا بھتان بن جاتا
ھے۔ ایک ایسی جوہڑ جس کے کیچڑ میں پھنس کر صرف ہم ہاتھ پاٶں
مار سکتے ھیں اس کے سواہ کچھ بھی نہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے بچاٶ
کے لئے کسی پہ اعتماد کرنا چھوڑ دیں ۔اسے شک کی نگاہ سے دیکھے۔اگر ہم ایسا
کرنا شروع ہوگئی،تو لوگ ہم سے بدظن ہوکر آہستہ آہستہ دور ہونا شروع ہو جاءیں
گے۔ہمیں چاہئے ،کہ ہم ہر کسی سےخوش اخلاقی سے پیش آئیں ، ہر کسی سے تعلقات استور
کرنے کی کوشش میں جھٹے رہیں ۔لیکن صرف ایک لمٹ میں رہ کر،ایک ایسی حودوجسے کبھی آپ
بھی فراموش نہ کریں اور مخاطب کو بھی اس کااحساس دلاتے رہے۔
انسان اپنی زندگی میں تب تک خوش رہ سکتا ہے ۔جب تک اس کا
واسطہ دکھوں سے نہ پڑا ھو ۔جیسا کہ ایک کمسن بچہ جسے صحیح اور غلط میں فرق کا علم نہ
ہو۔
لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ ایک نا ایک دن بلاغت
کی سیڑھی پر ضرور پہنچ جاتا ہے۔
پھر اس کا واسطہ زندگی کی حقیقت سے پڑتا ہے،
اور اس کے ساتھ ہی وہ دکھوں سے آشنا ہو جاتا ہے۔وہ درد کو
محسوس کرتا ہے۔اس کے بعد اسے ہر کردار سے رابطے استور کرنے پڑتے ہیں ، اسے ہر کردار
نبھانا پڑتا ہے۔
زندگی کی یہ ہی حقیقت ہے
اور ہمیں اسی کے بل بوتے جینا چاہئے ۔
ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو کے اصول پہ عمل کر
کے ہمیشہ اپنی منزل کی جانب گا مزن رہنا چاہئے۔
: By
Khadija
malik
Comments
Post a Comment