Khazany ki chabi by Romana Gondal

خزانے کی چابی


" اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنا دیا کہ اگر احسان مانو (شکر کرو ) گے تو میں اور دو نگا اور اگر نا شکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے‘‘
)سورہ ابراہیم(
اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ شکر کرو گے تو میں اور ذیادہ دوں گا۔ شکر دل کے احساس کا نام ہے ، اپنے پاس نعمتوں کے ہونے کا احساس اور ان کو اللہ کا احسان ماننا۔ اللہ کا وعدہ بے شک سچا ہے اور اس وعدے میں کسی خاص چیز کا ذکر نہیں کہ کس چیز کا شکر کیا تو اس میں اضافہ ہو گا یعنی یہ وعدہ ہر نعمت کے لیے ہے جس نعمت کا شکر کیا اس میں اضافہ ہو جائے گا۔ رشتوں کا شکر تو محبت ملے گی۔ دولت کا تو فروانی ملے گی۔صحت کا تو تندرستی۔ عزت کا کریں تو اور عزت۔ نیکی کے مواقع کا کریں تو اور مواقع۔ علم کا کریں تو مزید علم ۔ لیکن اس کے بر عکس نا شکری اور بے قدری سے نعمتوں کا زوال ہوتا ہے گویا شکر تو خزانوں کی چابی ہے جس کو مل جائے اسے خزانوں کا راز مل گیا۔ کتنا خوبصورت اور آسان سا راز ہے بس ایک احساس اپنے پاس نعمتوں پہ شکر گزاری کا اور پھر ان نعمتوں میں اضافہ ہی اضافہ۔ 
زندگی میں انسان کی ساری کو ششوں کا مقصد خوشی حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہ خوشی صرف نعمتوں کے ہونے سے نہیں بلکہ ان کے ہونے کے احساس سے ملتی ہے ۔ اپنے پاس موجود نعمتوں کے ہونے کا احساس سب سے بڑی نعمت ہے ۔ لیکن افسوس ہمارا عمومی رویہ نا شکری ہے جب نعمت ہوتو اس کا شکر نہیں کرتے ۔ لیکن جب وہ پاس نہ رہے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی نعمت تھی ، چاہے وہ وقت ہو، جوانی ، علم ، تندرستی یا کو ئی بھی اور نعمت ۔جوانی کام چوری ، سستی اور بے کار کاموں میں ضائع کرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ کیسا بہترین وقت ضائع کر دیا ۔ خدانخستہ بیماری آتی ہے تو صحت کی قدر ہوتی ہے۔نقصان ہو جائے تو رزق کی قدر کرتے ہیں۔ رشتے نہ رہیں تو قدر اور احساس جاگتا ہے ، ایک دم سے ان کی ساری خوبیاں نظر آنے لگتی ہیں لیکن جب پاس ہوں تو غصہ اور گلے شکو ے کرتے رہتے ہیں۔سروے کر کے دیکھ لیں زندگی میں دکھوں کو بڑا اور خوشیوں کو چھوٹا سمجھنے والے لوگ ہمیشہ نا خوش نظر آئیں گئے۔ انسان جس چیز کو پسند کرتا ہے اس میں اصافہ چاہتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم جس چیز کو ذیادہ عزیز رکھتے ہیں اس معاملے میں گلے شکوے بھی ذیادہ کرتے ہیں ۔ ہونا تو یہ حاہیے کہ ہم حقیقتا جس نعمت کو پانا چاہتے ہیں، جس شعبے میں ترقی کرنا چاہتے ہیں اس میں آنے والی آ سانیوں اور کامیابیوں پہ ذیادہ شکر کریں ان میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ہمارا رویہ اس کے بر عکس ہوتا ہے جہاں ذیادہ ترقی چاہتے ہیں، ایک نام بننا چاہتے ہیں وہاں چھو ٹی کامیابیوں پہ مایوسی اور بے وجہ ہی غصہ آنے لگتا ہے ۔ ہم اپنے پاس موجود کتنی ہی نعمتوں کو محض اپنی اس عادت کی وجہ سے ضائع کر دیتے ہیں۔ وقت ، جوانی ، انرجی بہت بڑی نعمتیں ہیں ۔ لیکن نہ شکر کرتے اور نہ استعمال۔ انسان انسانوں کی شکریہ ادا نہیں کرتے ۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو کام سے پہلے تو انتہائی خوشامد ی ہوتے ہیں لیکن کام نکلتے ہی مڑ کے ایک لفظ شکریہ کا نہیں کہتے ۔ 
اللہ تعالی نعمت دیتے ہیں آسانیاں پیدا کرتے ہیں تو اکثر اس کا وسیلہ انسان بنتے ہیں ۔ اس لیے اللہ رب العزت کا ہمیشہ اٹھتے بیٹھتے شکر گزار ہونا چاہیے اور انسانوں کے لیے بھی رویہ شکر گزاری کا ہی ہونا چاہیے ۔ لیکن ہم بہت پرہیز گاری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ انسانوں سے کیا لینا دینا صرف اللہ کا شکر کرنا چاہیے اور کرتے وہ بھی نہیں ۔ کبھی شکر کریں تو بھی تو زمانے بھر کی بیزاری چہرے پہ سجا کے اتنے دکھ سے کہتے ہیں جیسے یہ الفاظ بڑا احسان کر کے ذبان سے نکال رہے ہوں۔ انسانوں کے ساتھ بھی ہر وقت ایک ڈیماڈنگ رویہ رہتا ہے، جو کیا کسی نے اس کو تو بھلا دیتے ہیں لیکن جو نہیں ہو سکا اس کا گلہ کرتے رہتے ہیں ۔ کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ہمیں بھی کچھ کرنا ہے بس دوسروں سے ہی بے جا امید یں اور گلے کرتے ہیں جو دوسروں کو بیزار کردیتا ہے ۔ کبھی غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہر بد قسمت انسان نا شکر ا ہوگا یا اس کی نا شکری یہ احساس پختہ کر دیتی ہے کہ وہ بد قسمت ہے۔ جب تک نعمت کا استعما ل نہیں ہوگا یہ شکر نہیں ہے۔ جسم کے اعضاء کا استعمال کریں گئے تو شکر آئے گا۔ غور فکر کریں گئے تو کائنات میں موجود اپنے گھر میں موجود نعمتوں کا شکر کریں گئے۔ زندگی میں خوشی چاہیے تو شکر گزار بننا پڑے گا ۔ کیونکہ قدرت کی عطا کی جانے والی نعمتوں پہ ڈ اکے نہیں ڈالے جا سکتے۔ اس کے لیے وہ چابیاں تلاش کرنی پڑتی ہیں کیونکہ چابیوں کے بغیر خزانے نہیں نکلتے اور شکر وہ چابی ہے جس کو سنبھال کے رکھنا ہو گا پھر ملیں گئے ہماری سوچوں سے بڑے خزانے ۔ 

رومانہ گوندل

Comments

Post a Comment