Use aaj bhi us ka intizar tha by Muhammad Shoaib Younas Chaudhary

Use aaj bhi us ka intizar tha by Muhammad Shoaib Younas Chaudhary

اسے آج بھی اس کا انتظار تھا
محمد شعیب یونس چوہدری
ایک گاوں میں دو بھائی الطاف اور اکرم رہتے تھے۔الطاف بڑھا تھا جبکہ اکرم چھوٹا تھا وہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے تھےالطاف بڑھا تھا اور اکرم چھوٹا تھا ۔اکرم کا یورپ میں اپنا کاروبار تھا اور اس کی شادی بھی ایک بڑھے گھرانے سے ہوئی تھی جبکہ ۔الطاف یہاں پر ہی محنت مزدوری کرتا تھا اور اپنے والدین کی خدمت کرتا تھا۔
ان کے والدین کی وفات کے بعد دونوں بھائی بیویوں جھگڑوں کی وجہ سے علحیدہ ہو گے۔الطاف کے ہاں ایک ہی بیٹا پیدا ہوا اس کی پیدائش پر سب نے الللہ کا شکر ادا کیا اور اس کا نام عمیر رکھا ۔جبکہ اکرم کے گھر ایک سال بعد بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام گلناز رکھا گیا ۔گلناز کی پیدائش پر اس کے والدین نے پورے خاندان والوں کی دعوت کی طرح طرح کی رسمیں کیں ۔۔۔
آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا ۔عمیر سکول جانے کے قابل ہوا اس کے والدین  نے اس کو ایک سرکاری سکول میں داخل کرو دیا۔اس کی تربیت اچھے طریقے سے کرنے لگے ۔عمیر بھی اپنے والدین کی طرح غریب ضرور تھا مگر محنت اور خوش اخلاق تھا ۔اور ہر کلاس میں سے پہلی پوزیشن پرآتا جوکہ گلناز کی والدہ کو اچھی نہ لگتی تھی تھی ۔وہ ناخوش رہتی تھی عمیر نے دسویں کلاس میں اچھے نمبر لیے اور  اگلی کلاسوں میں سکالر شپ پر پڑھ رہا تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ غیر نصابی سر گرمیوں میں بھی حصہ لیتا اور ہمیشہ ٹاپ پر رہتا یہی وجہ ہے کہ اس کی شہرت کے چرچے پورے علاقے میں پھیلے ہوے تھے۔ بڑھے بڑھے لوگ اس کو انعاموں سے نوازتے۔
گلناز ایک پرائویٹ سکول میں جاتی اور والدین نے اس کو لاڈاور پیار میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔اور اس کی ہر تمنا پوری کرتے یہی وجہ ہے۔اس کو بجا لاڈ پیار نے بگاڑ دیا تھا اس کے والدین نے اسے کمپوٹر اور موبائل لے کر دیے ہوے تھے مگھر اور طرح طرح کے فیشن کرتے نے نے کپڑے پہنتی ۔اور والدین کا پیسہ فضول میں اڑاتی تھی اور اپنی پڑھائی پر توجہ نہ دیتی یہی وجہ کہ وہ اچھے نمبر نہ لے پاتی ۔خیر جیسے تیسے کرکے بی اے وہ بھی کر ہی گئ تھی
دوسری طرف عمیر سادگی پر ہی گزارہ کرتا ۔اس کو ملنے والے انعام و اکرام میں سے کچھ اپنی چچا زادگلناز کو تحفے بھیج دیتا تھا ۔وہ گلناز سے محبت کرتا تھا تھا ۔اور اسے اپنی امیری اور خوبصورتی پر ناز تھا ۔جو اسے ٹھکرا دیتی تھی ۔وہ اکثر اسے تحفے دیتا مگر وہ کم قیمت ہونے کی وجہ سے گھر کے کسی کونےمیں پھینک دیتی ۔اور نہ اس کو اور نہ اس کے تحفوں کو اہمیت دیتی کیونکہ اس میں تکبر اور امیری خوبصورتی کا غرور بھرا ہوا تھا عمیر اپنے جیب خرچ میں سے پیسے جمع کرتا رہا آخر اس نے ان پیسوں سے اس نے اس کے لیے ایکسونے کا خوبصورت چین خریدا وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ غریب ضرور ہے مگر کنجوس کمزور بزدل  نہی بلکہ اپنا سب کچھ داو لگا کر اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی دے سکتا ہے۔اسی اثنا میں وہ سرکاری اسکول میں استاد لگ گیا تھا۔
دوسری طرف گلناز نے ایک امیر گھرانے ایک آوارہ لڑکے سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جوکہ باہر سیٹل تھا ۔اس کی والدہ بھی خوش تھی ۔ارسلان جوکہ شراب کا عادی تھا روزانہ کسی نئی لڑکی کے ساتھ گھومنا اس کا پیشہ تھا ۔نہ جانے کیا دیکھ کر گلناز اور اس کے والدین اس کے ساتھ شادی پر رضا مند ہو گے ۔
دوسری طرف عمیر کے والدین نے عمیر سے پوچھا تو اس نے گلناز کا زکر کیا جس پر اس والدین کو خوشی ہوئی کہ ان کی اپی ہی ان کے گھر بہو بن کر آے گی ۔تو اس کے والد نے اپنے بھای سے جب یہ بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ واپس آکر گلناز کی شادی عمیر سے کریں گے ۔گلناز ابھی پڑھائی کر رہی ہے۔
اور عمیر کو ان کی بیٹی سے شادی کرنے کے لیے تھوڑا عرصہ انتظار کرنا ہوگا۔۔۔۔۔
ادھر گلناز کی ضد نے والدین کو پریشان کیا اور انہوں نے ادھر ہی اس کی شادی ارسلان کے ساتھ کر دی ۔شروع شروع میں تو دونوں خوش تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا ۔ان دونوں میں لڑائیاں شروع ہو گیں ۔کیونکہ ارسلان نشے کا عادی تھا جس وہ چھوڑ نہہی سکتا تھا ۔اور ساری ساری راتوں میں کلبوں میں رہتا اور آوارہ لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارتا اور گلناز گلناز کے بار بارمنت سماجت کرنے کے باوجود وہ نشہ چھوڑ نہ پایا ۔گلناز کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔گلناز اپنے کیے پر شرمندہ تو تھی مگھر اب کر بھی کیا سکتی تھی ۔گلناز کے گھر بیٹا پیدا ہونے پر اس کا تھوڑا چین واپس لوٹا ضرور مگر۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف عمیر کے والدین دنیا فانی سے کوچ کر گے تھے اور گاوں والوں کے ہزار ہاسمجھانے کے باوجود وہ گلناز کا انتظار کر رہا تھا ۔اسی کے خواب دیکھتا اور اسےآج بھی اس کا انتظار تھا
اسے کیا معلوم تھاکہ تقدیر اس کے ساتھ کیا کھیلنے جا رہی ہے
ایک دن گلناز اپنے بچے کو اپنے والدین کے پاس چھوڑ کر کہیں کام گی تھی ۔مگر جب وہ واپس گھر پہنچی تو قیامت برپا ہو چکی تھی ۔کہ ارسلان کلب سے واپسی پر بہت زیادہ نشے کی حالت میں اپنے خواس کھو کر اس کے والدین اور اس کے بیٹے کو قتل کر کے فرار ہو چکا تھا
اب وہ چلانے علاوہ کچھ کر بھی کیا سکتی تھی۔
اب پچھتاے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
اب وہ روتی رہتی۔غم سے بری طرح نڈال ہو چکی تھی ۔ایک دفعی خود کشی کرنے کی کوشش کی جو اسکی ہمساے میں رہنے والی دوست عمارہ نے ناکام بنا دی ۔پھر اس کی دوست نے اس کے بتانے پر واپس بھیج دیا ۔تاکہ بقیہ زندگی کسی طرح یہ گزار سکے۔
جب واپس آئی تو عمیر تو پہلے ہی اس کے انتظار میں ریتا تھا ۔
اس نے جب اسے یہ سب بتایا تو اسے اس کی اور اپنی قسمت پر افسوس ہوا برحال اس نے پھر بھی اس کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ۔
اس پر توجہ دیتا اسے کہتا کہ وہ سب کچھ بھول جاے سمجھے کچھ تھا ہی نہی۔
مگر اس پر جو گزری تھی اسے کیسے بھولتی وہ بظاہر توخوش نظر آتی مگر اندر ہی اندر کڑتی رہتی اور عمیر کے ساتھ کیے سلوک پر شرمندگی کےآنسو بہاتی ۔
عمیر اس کے ساتھ کتنا اچھا برتاو کر رہا ہے اور وہ تھی کہ بس؟
ایک دن اس نے عمیر سے شہر جانے کو کہا ۔
عمیر اس کے ساتھ چل دیا۔۔
شہر گھومنے پھرنے کے بعد وہ ایک ہوٹل پر کھانے کے لیے گے ۔
وہاں پر عمیر نے کھانے کا آرڈر دیا اور تھوڑی دیر بعد گلناز عمیرکو یہ کہ کر باہر گئ کہ وہ اس کا انتظار کرے وہ آرہی ہے تھوڑی دیر بعد عمیر کو ایک شخص نے بتانا تھا کہ وہ گر کر بے ہوش ہو گیا ہوش آنے پر اسے پتا چلا کہ گلناز باہر روڈ پر آنے والی بڑی تیزرفتار گاڑی کے سامنے کود گئ ۔
گاڑی کی تیز رفتاری کےباعث اس کے سر میں ایسی چوٹ لگی کہ وہ وہیں پر ڈھیر ہوگئ ۔اور عمیر کے لیے قیامت جیسا سما ں برپا کر گئ۔
عمیر یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا اور اب وہ پاوڈر جیسے گندے نشے پر لگ چکا تھا
کہا جاتا ہے کہ وہ اسی کا انتظار کرتا رہتا تھا۔
بعد میں پانچ چھ سال اسی شہر کی چوک میں بیٹھا رہتا اور انتظار کرتا رہتا ۔
جیسے ہی دسمبر آیا جوں جوں سردی بڑتی گئ وہ رات کو بھی چوک میں آگ جلا کر تاپتا تھا ۔ایک رات دھند اس قدرطپڑی تھی کہ کہی کچھ دکھائی نہ دیتا ۔
یہ اس چاک میں تھا کہ ایک ٹرک والے نے نظر نہ آنے کے باعث عمیر سائیں کو کچل ڈالا ۔
لوگ اکٹھے ہوے آخر میں اس کے لبوں پر تھا کی گلناز آگئی۔بس اس روح پرواز کر چکی تھی اور وہ ڈھیر ہو چکا تھا ۔
لوگوں کے لیے ایک سبق چھوڑ گیا تھا کہ دولت امیری گاڑیاں کسی کام کی نہی اگر زندگی میں احساس رشتے نہ مل پائیں تو انسان کو کچھ اچھا نہی لگتا۔
دوسرا ۔
غرور اور تکبر میں اپنوں سے دور جانے والوں کا سہارا بھی اپنے ہی بنتے ہیں
*******************
The End

Comments