ون ویلنگ شوق تھا یا موت
ایک دردناک کہانی
عمار گوجرانولہ کے قریب
ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا ۔عمار اپنے خاندان میں پیدا ہونے والا اکلوتا بیٹا
تھا ۔کیونکہ عمار کے والد سب بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔عمار کے والد صاحب کے تین
بڑے بھائی تھے ۔بڑے بھائی جو کہ انتہائی کسمپرسی کیزندگی بسر کر رہے تھے ۔تینوں بھائی
محنت مزدوری کرتے تھے ۔اور تینوں بھائیوں کے گھر دو تین اورایک بیٹیاں تھیں جبکہ عمار
کے چھوٹے تایا کے گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی ۔اور اس کے بعد دو بیٹےپیدا ہوے جوکہ ایکایک
سال کے ہوتے ہی دل کی بیماری کے باعث وفات پا گے تھے ۔عمار کی والدہ ایک نجی سکول میں
استانی تھی ۔اور عمار کے والد سرکاری ادارے میں کلرک تھے ۔
عمار کے والدین کی شادی
کو چار سال گزر گے تھے۔ان کے گھر کی شاخ ابھی سبز نہی ہوئی تھی ۔پانچویں سال الللہ
نے بیٹا عطا کیا ۔جس کی پیدائش پر پورا خاندان خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔سب کے لیے ایک
امید بن کر عمیر آیا تھا ۔اس کے والدین نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔اس کی پیدائش
پر نہ صرف اس کے امی ابو چچا تایا خوش تھے بلکہ اس کے ننیال والوں کے لیے بھی اتنی
ہی خوشی تھی کیونکہ ان کے لیے عمار دوسرا پیدا ہونے والا بیٹا تھا۔عمار کا نام بھی
اس کے نانا جی نے رکھا تھا ۔
عمار کی پرورش اس کے والدین
اچھے طریقے سے کر رہے تھے۔ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کے والد صاحب اسے ساتھ مسجد میں
لے جاتے ۔یہی وجہ تھی کہ وہ بہت چھوٹی عمر میں قرآن پاک کو پڑھ چکا تھا ۔چونکہ عمار
کی والدہ خود اسکول میں استانی تھی۔اسے اسی سکول میں ساتھ لے جاتی ۔گھر میں آکر بھی
اس کا خیال رکھتی۔اس کا ہوم ورک کرواتی ۔عمار زہین بھی تھا محنتی بھی اس لیے ہر کلاس
میں اول پوزیشن پر آتا جس پر ۔جس پر اس کے پورے خاندان والے اور والدین خوش تھے۔اس
کے والدین اس کی ہر تمنا پوری کرتے ۔جب میٹرک پاس کیا تو اچھے نمبروں سے نہ صرف انعام
و کرام حاصل کر سکا بلکہ دو سال کے لیے سکا لر شپ پر اسے شہر میں کالج کا داخلہ بھی
فری مل چکا تھا۔
ان سب اچھائیوں کے باوجود
ایک خامی بھی موجود تھی ۔وہ تھی ضد ۔جس چیز کی ضد کر بیٹھتا لاکھ سمجھانے کے باوجود
نہ سمجھتا تھا ۔جوکہ اکثر اس کی اچھائیوں پر پانی بھی پھیر دیتی ۔کیونکہ ضد بھی کسی
اچھے کام کے لیے کی جاے تو وہی اچھی ہوتی ہے ۔کبھی تو خامخواہ ضد کر کے گھر والوں کو
الجھن میں ڈال دیتا تھا۔
شروع شروع میں تو عمار
کالج گاڑی پر جاتا تھا ۔اب کالج میں طرح طرح کے لوگوں سے اس کا واسطہ پڑتا ۔ادھر زیشان
علی عدنان اور وسیم۔اس کے کلاس فیلو تھے۔انھی کے ساتھ اس کی دوستی تھی ۔وہ اچھے کھاتے
پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔جو پڑہائی پر کم مستیوں پر زیادہ زور دیتے تھے ۔چونکہ
وہ امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اس لیے وہ موٹر سائیکلوں پر آتے ۔اور عمار کو بھہ
اس بات پر اکساتے کہ وہ بھی موٹر سائیکل لے ۔
اب عمار گھر میں آکر ضد
کرتا ۔جس پر اس کے والدین ٹال دیتے تھے ۔اور اسے اچھے طریقے سے سمجھا دیتے ۔آخر اس
کی ضد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اس نے والدین سے کہا اگر وہ موٹر سائیکل لے کر نہی
دیں گے ۔وہ کالج بھی نہی جاے گا ۔بلآخر اس کے والدین نے اسے موٹر سائیکل لے دیا۔
اب وہ موٹر سائیکل پر
کالج جانے لگا۔شروع شروع میں تو وہ موٹر سائیکل کو احتیاط سے چلاتا اور اسے سمبھال
کر رکھتا ۔
مگر آہستہ آہستہ اب سارے
دوست آپس میں ریس لگانے لگے ۔عمار بھی ان میں سے ایک تھا جو بہت تیز رفتار سے
موٹر سائیکل چلاتا اور موٹر سائیکل ریس بھی جیت جاتا۔ اب عمار ان شیطانی کاموں میں
دلچسپی مزید لینے لگا۔وہ اینڈرائیڈ موبائل بھی خرید چکا تھا ۔یہ دوستوں کے ساتھ دوستوں
کے ساتھ ریس لگاتا۔
اس نے فیس بک اور ٹک ٹوک
پر اکاونٹ بنایا تھاجہاں پر اپنی تصوریں اور ویڈیوز اپلوڈ کرتا ۔
اب اس میں ایک نیا شوق
پیدا ہوا ۔جو ون ویلنگ کا تھا جو بعد میں اس کے لیے خطر ناک ثابت ہوا ۔
ایک دن دوستوں کے ساتھ
مل کر اس نے موٹر سائیکل کے سائلنسر سے بانسری نکالی اور موٹر سائیکل کے ٹائروں کے
اوپر لگے کیچڑ میٹ اور ماڈی گاڈز بھی اتار دیے ۔اوراب یہ پھٹی آواز کے ساتھ جب موٹر
سائیکل گھر لے کر جاتا تو نہ صرف اس کے گھر والے تنگ تھے بلکہ پورا گاوں اس سے تنگ
تھا ۔گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا ۔اور عمار اس کام میں مسلسل
لگا رہا۔
کبھی سڑک پر یہ موٹر سائیکل
کا اگلا ٹائر اٹھا دیتا تو کبھی ہجوم ہیں ۔
ون ویلنگ کے نام سے پورے
علاقے میں مقبول ہو چکا تھا ۔اور طرح کی مستی کرتا اور شہر میں گاڑیوں کے ہجوم میں
میں یہ ویلنگ کرتا اور ویڈیوز بناتا اور ٹک ٹاک پر اپلوڈ کرتا ۔اور لوگوں سے شرطیں
لگاتا اور جیت بھی جاتا مگر اسے کیا معاوم تھا کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔
ہوا یوں کہ ایک دن وہ
کہیں کام سے گیا ہوا تھا اس کے دوستوں نے کسی سے یہ شرط لگائی کہ شہر کی مین سڑک پر
وہ ون ویلنگ کرے گا ۔اس خاصی بھاری رقم لگائی گی۔جب شام کو واپس جب آیا تو اس کے دوست
اس کا انتظار کر رہے تھے ۔انہوں نے اس کو بتایا کہ رات کو شہر کی چوک میں میلہ ہے
۔رات کو وہ ویلنگ کرے گا اس کے عوض انہوں نے نے بھاری رقم کی شرط لگائی ہے اسے ہر صورت
جانا ہوگا ۔وہ والدین کو میلہ دیکھنے کا بتا کر چلا گیا۔مگر اس کی والدی بے چین تھی
۔جب بھی وہ باہر جاتا ۔جب تک واپس نہ آ جاتا وہ چین سے نہ بیٹھتی ۔لیکن نہ جانے آج
تو وہ بے حدبے چین تھی ۔وہ کب جانتی تھی کہ اس کے اپنے گھر میں میلہ لگنے والا ہے
۔
عمار دوستوں کے ساتھ شہر
پہنچا لوگ ہجوم در ہجوم چوک میں جمع ہو رہے تھے۔جہاں لوگوں نے اپنے اپنے کرتب کا مظاہرہ
کرنا تھا ۔انہی میں سے ایک یہ تھا جو زندگی اور موت کی شرط کا مقابلہ بنا تھا۔شہر کے
چو راہے میں میلہ شروع ہو چکا تھا جادوگھر اور مداری اور محتلف لوگ طرح طرح کہ کرتب
کرہے تھے جوں ہی رات کے نو بجے یہ ون ویلنگ کرنے جا رہا تھا مگر یہ نہی جانتا تھا کہ
اس کےبعد کبھی نہ کر پاے گا اور یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہو گا ۔جیسے ہی اس نے موٹر
سائیکل کو اسٹارٹ کیا ۔اس کے دوستوں نے ویڈیو بنانے کے لیے کیمرے آن کیے ۔پھٹء آواز
والے موٹر سائیکل کا اگلا ٹائر اٹھایا ہوا۔ویلنگ کرتا ہو چوک کے درمیان پہنچا تو ایک
زور دار دھماکہ ہوا ۔ہر طرف چیخ و پکار کی آواز اٹھی ۔سارے لوگ چوک میں سب کچھ چھوڑ
کر جمع ہو چکے تھے لال بتی والی گاڑیاں اور پولیس چوک میں پہنچ چکی تھی ۔
ہوا یوں کہ عمار جیسے
ہی موٹر سائیکل کے اگلے ٹائر کو اٹھا کر چوک میں پہنچا تو اندھیرا ہونے کے باعث اس
موٹر سائیکل ایک چھوٹے سے پتھر سے سلپ ہو گیا اور تیز رفتاری کے باعث وہ سمبھل نہ سکا
اور دوسری طرف آتی سواریوں والی بس کے سامنے جا گرا۔ بس بھی چونک تیز رفتاری سے آ رہی
تھی ڈرایور بریک نہ لگا پایا اور گاڑی اسے کچلتی ہوئیروڈ سے لگے سیفٹی جنگلے سے ٹکرا
گی۔نہ صرف عمر کچلا جا چکا تھا بلکہ گاڑی کے ڈرئیور سمیت دو لوگ موت کا لقمہ بن چکے
تھے ۔اور کی لوگ زخمی ہو گے تھے ۔زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ۔مرنے والوں کو بھی
اٹھایا گیا مگر عمار کا جسم بری طرح کچلا جاچکا تھا ۔اس لیے اسے ایک بند ڈبے میں بند
کردیا گیا ۔جس میں سے لاش کو اور نہ چہرے کو دیکھا جا سکتا تھا ۔دوسری طرف کسی دوست
سے نمبر لے کر اس کے والدین کو جب خبر دی گی۔تو اس کی والدہ سنتے ہی بے ہوش ہو گی
۔اس کے والد چکرا گے اور اپنے خواس کھو بیٹھے۔وہ تو لقمہ اجل بن چکا مگر وہ یہ
نہی جانتا تھا کہ اس کے والدین نے اس کی پیدائش کے لیے کتنی منتیں مانیں تھیں ۔اس کے
والدین پر کیا گزرے گی۔اس ماں باپ تو کیا پورے خاندان والے سب سوگوار تھے ۔جب اس کی
لاش کو گھر لایا ھیا تو اس کے والدین کے اسرار کےباوجود اس کا منہ دیکھنے کے لیے ڈبہ
نہ کھولا گیا کیونکہ اگر اس کی حالت اس کی ماں دیکھتی تو مر جاتی ۔مر تو وہ پہلے ہی
چکی تھی ۔کیونکہ اس نے کی خواب دیکھے تھے جو آج مٹی کے نیچے دبا دیے گے۔بعد میں اس
کے والد کو برین ہیمبرج ہو چکا تھا ۔اس کی والدہ نفسیاتی مریض بن چکی تھی ۔کیا قصور
معاشرے کاتھا دوستوں کا ۔اگر اس پر پابندی ہوتی ادرے اس پر گرفت رکھیں تو عمار جیسی
کئ جانیں بچ جائیں ۔بلکہ کی مایئں غمزدہ نہ ہو سکیں۔
ون ویلنگ عمار کا شوق
تھا یا موت ۔ون ویلنگ اس کی موت بن چکی تھی اور اس کے دوست بھی اس قدر غمگین ہو گے
تھے کہ آج بھی وہ موٹر سائیکل پر نہی بیٹھتے۔عمار آنے والے لوگوں کے لیے عبرت بن چکا
تھا۔
آج کے نوجوانوں کے نام پیغام
تمام ان نوجوانوں سے گزارش
ہے کہ جنہوں نے موٹر سائیکلوں سے بانسریاں نکالی ہوئیں ہیں۔اس سے نہ صرف معاشرے میں
شور کی آدگی پھیلتی ہے ۔لوگوں کا سکون برباد ہوتا ہے
اور جن لوگوں پر ون ویلنگ
کا بھوت سوار ہے وہ عمار کی کہانی سے سبق سیکھیں عبرت پکڑیں اور اپنے والدین
کو غمزدہ ہونے سے بچائیں۔ امید ہے کہ یہ کہانی پڑنے والا اگر ویلنگ کرتا ہے تو دوبارہ
کبھی نہی کرے گا ۔
اللہ سے دعا ہے کہ سب
کو حفظ و امان میں رکھے ۔
محمد شعیب یونس چوہدری
Comments
Post a Comment