"لکھاری اور مداری"
از قلم :منیزہ احمد
میں کافی دنوں سے ایک ناول لکھنا چاہ
رہا ہوں۔جس کی تحریر کو چھو جانے والی
ہو۔جو حقیقت کے قریب تر ہو۔حقیقی کردار فرضی نام سے ہوں۔اور الفاظ کا چناؤ ایسا ہو
کہ قاری ان کے سحر سے دیر تک آزاد نہ ہو۔منظر کشی اتنی دلفریب ہو کہ قاری خود اس
منظر کا حصہ بن جاۓ۔
اسی غرض سے میں شہر کی ایک مصروف
شاہراہِ پر موجود چاۓ
کے ایک ہوٹل پر بیٹھا کہانی کا مرکزی خیال سوچ رہا تھا۔میرے گھر میں میرا کمرہ اور
یہ ہوٹل میرے ساتھی ہیں میرے لکھنے میں ان کا بہت ساتھ ہے۔ کمرے کی تنہائی پر سکون
ماحول لکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اور اس ہوٹل کا یہ گوشہء مجھے میری
کہانی کے جیتے جاگتے کرداروں سے ملاتے ہیں۔ میں یہاں بیٹھ کر لوگوں کا مشاہدہ کرتا
ہوں۔لوگوں سے ملنے ملانے سے بھی آپ کے پاس بےکرا مواد جمع ہوتا ہے۔ان کے تجربات
،تجزیات اور مشاہدات کہانی کی روانی میں مددگار جو ثابت ہوتے ہیں۔
میں تلخ ہو رہا تھا کہ اتنے دن ہوگئے
مگر میں پوری دلجمعی سے ایک صفحہ بھی نہیں مکمل کر پا رہا ہوں۔آدھے ادھورے سیاہی
میں ڈوبے صفحات میری تسلی نہیں کر پارہے تھے۔
"محبت
" اس پہ لکھا جائے مگر اس پہ تو شاید لکھنا بیکار ہے۔آجکل کی محبت تو پارکوں
،گلیوں،سے ترقی کرکے گھروں کے اندر گھس گئ ہے۔گوگل ولیج کے ذریعے ۔کوئ چھوٹا سا
بچہ بھی ایک سو ایک طریقے محبت میں کامیابی اور محبت میں ناکامی کے گنوا دے گا یا
پھر کتابی صورت میں چھپوا لے گا۔
امیری غریبی یہ تو آپس میں ہم جولی
ہیں ایک دوسرے کے ساتھ صدا سے ہیں اور رہینگی۔
بے وفائی ارے یار کہیں ہیرو مجبور تو
کہیں ہیروئن لاچار۔اور اگر دونوں وفادار تو زمانہ دغاباز ۔
ماں باپ کی نافرمان اولاد تو انجام
عبرتناک اور فرمابردار تو انجام شادباد۔
ان سب موضوعات پر بہت سے قلم کار بہت
اچھا لکھ چکے ہیں۔میں انھیں سوچوں میں گم تین چار چائے کے کپ پی چکا تھا۔مگر پھر
بھی ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ ایسا کیا لکھوں جو مجھے مطمئن کردے میں پر
سکون ہو جاؤ۔
کتنا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے نا آپ کے
پاس جذبات ہوں پر الفاظ نہیں ہوں صفحہ پر موتی پرونے کے لیے۔
اور الفاظ ہوں مگر جذبات سے آری جن
میں نہ درد کا احساس ہو اور نہ ہی خوشی کی مہک محسوس ہو۔
مجھے خود پر کسی کی نظروں کا ارتکاز
محسوس ہوا۔میں نے اردگرد نظر دوڑائی مگر کوئی ایسا ذی روح نظر نہیں آیا جس کی
دلچسپی کا میں محور ہوتا۔
لیکن شاید یہ میری غلط فہمی تھی۔
میں پھر سے سارا دھیان لکھنے میں لگا
رہا تھا۔مگر اب دھیان بھٹک رہا تھا۔فطری تجسس کے تحت میں نے وقتاً فوقتاً اپنے
اردگرد نظر دوڑائی مگر ایسا کوئی قابل گرفت نظر میں نہ آیا جس کی نظروں کا محور
میں ہوتا۔ میں نے لاپرواہی سے سر جھٹکا اور دوبارہ سے اپنے کاغذ قلم سے رابط قائم
کر لیا ۔میرا ویسے ہی بہت وقت ضائع ہوگیا تھا۔ادھورے لفظوں کی بدولت! میں نے ایک
کپ چائے کا اور آرڈر دیا ۔تھوڑی دیر میں چاچا (جو اس ہوٹل میں برسوں سے کام کررہے
تھے۔میری ان سے اب اچھی سلام دعا ہے) وہ چائے کے ساتھ بسکٹ وغیرہ بھی لے آئے۔ میں
نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا؟ وہ کہنے لگے پتر خالی پیٹ تو لفظ بھی نہیں
آنے! پیٹ بھرا ہوا ہو تو ہری ہری سوچتی ہے اور تو خالی پیٹ چلا ہے کہانی لکھنے؛
پہلے رج کے کھالے پھر لکھیو کہانی۔ میں نے چاچا جی کا شکریہ ادا کیا اور لگا
کھانے۔ اب تو مسلسل مجھے اپنے اوپر کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا ۔میں نے سوچا
میرے پاس کیا ہے جو مجھے کوئی اپنی نظر میں رکھے چند سیاہی سے بھرے ہوئے ورق جن کے
قدر دان تو اب خال ہی خال ملتے ہیں۔ بس اسی سوچ نے مجھے مطمئن کیا اور میں پوری
دلجمعی سے کھانے لگ گیا ۔چاۓ
بسکٹ ۔ تھوڑی ہی دیر گزری مجھے کرسی گھیسٹنے کی آواز آئی۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا
ہوں؟ میں نے سر اٹھایا اور آواز کی سمت گردن گھما کر دیکھا۔ وہ ایک نوجوان تھا
بھرے جسم کا مالک اس کی آنکھوں میں بے نام سی چمک تھی۔کھڑے نقوش کا خوبرو جوان مگر
کچھ تو ایسا تھا جو اس میں کشش پیدا کر رہا تھا۔ اسکے گلہ کھنگرانے کی آواز سے
میرا اس کا تفصیلی جائزہ لینے کا پروگرام ختم ہوا۔ میں: (جی بیٹھے اب کہاں کی
کہانی کہاں کا تسلسل! دل ہی دل میں خود کو دس سنا چکا تھا میں اسکے بیٹھنے تک۔) جی
فرمائیں ! کیا ؟ میں آپ کو پہچانا نہیں ۔ وہ :آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپ کو
تھوڑا بہت جانتا ہوں۔ میں: او اچھا آپ کا نام کیا ہے؟ وہ نوجوان :میرا نام صمد ہے۔"عبدالصمد
" میں : اچھا نام ہے ماشاءاللہ باتیں شروع کرنے سے پہلے میں اس کے لیے بھی چاۓ
اور اپنے لیے بھی دوبارہ چاۓ
کا آرڈر دے چکا تھا۔"کیونکہ قلم کار کے لیے تو چاۓ
طاقت کے شربت کا سا کام دیتی ہے نا" ! ہاں تو عبدالصمد صاحب (صمد اللہ تعالیٰ
کا صفاتی نام ہے اور اللہ کے نام اسکے بندوں کے رکھے جاتے ہیں تو اس کے ساتھ
عبدالل لگایا جاتا ہے اور بولا جاتا ہے یعنی اللہ کا بندہ ) کہیں آپ مجھے کیسے
جانتے ہیں۔؟ عبدالصمد: میں آپ کو اکثر یہاں بیٹھے دیکھتا ہو۔ میں :اچھا مگر مجھے
کبھی اتفاق نہیں ہوا آپ کو دیکھنے کا۔ عبدالصمد: جناب آپ لکھنے لکھانے والے کہاں
ہم جیسوں پر دھیان دینگے۔ میں :جی نہیں آپ کا شکوہ غلط ہے ہمارے جیسے ہی تو ہر چیز
پر دھیان دیتے ہیں۔کہانی لکھنے کے لیے۔ہمارا مین سبجیکٹ انسان ہی تو ہوتا ہے۔
عبدالصمد: جی جی آپ لوگوں کے احساسات ،جذبات کو لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔آپ لوگوں
کی قلم کی طاقت سے کمزور کو انصاف بھی ملتاہے۔ چھپا ہوا سچ سب کے سامنے پیش ہوجاتا
ہے۔(وہ سانس لینے کو روکا) سچ کو جھوٹ،جھوٹ کو سچ کے لبادے میں سجاکر قاری کو
مہبوت کردیتےہیں۔قاری خود کو ہی ہیرو سمجھنے لگتا ہے لفظوں کی ہیر پھیر سے۔وہ
کہانیوں کے کردار کو حقیقت میں تلاش کرنے لگ جاتا ہے۔ خوبصورت اتفاقات کا انتظار
کرنے لگ جاتا ہے۔زندگی کو بدلنے کے لیے! میں :عبدالصمد صاحب آپ تو بہت گہری باتیں
کرتے ہیں۔ عبدالصمد: جی میں بھی پہلے قلم کار تھا۔ میں :تھا کیا مطلب؟ آپ تو اب
بھی لکھ سکتے ہیں اور بہت خوب لکھ سکتے ہیں۔آپ کی گفتگو سے تو اندازہ ہوتا ہے آپ
کے قلم کی طاقت میں زور تھا؟ عبدالصمد : جی کسی زمانے میں میرے نام کا بھی طوطی
بجاتا تھا۔ میں : پھر اب کیا؟ اب کیوں نہیں لکھتے آپ؟ ( مجھے عبدالصمد صاحب سے
باتیں کرکے لگنے لگا تھا کہ میرا انتظار ختم اب میں بہت ہی اعلیٰ کہانی لکھ پاؤ
گا۔میری کہانی کا کردار ایک جیتا جاگتا قلم کار تھا۔اب تو میری کہانی نے دھوم
مچانی تھی ۔لوگ برسوں نہیں تو کچھ سال تو مجھے میری اس کہانی کے حوالے سے یاد ر
کھیں گے۔) جاری ہے۔ طوالت کی معذرت خواہ ارادہ تو تھوڑا سا لکھنے کا تھا مگر الفاظ
آتے گے اور میں لکھتی گی۔ آپکی قیمتی رائے کا انتظار رہے گا۔ از قلم منیزہ احمد
آخری حصہ
"لکھاری
اور مداری"
عبدالصمد: بس اب قلم سے ناطہ توڑ لیا
ہے۔بچپن سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔کالج ،یونیورسٹی لیول تک میگزین کا انچارج ہوتا
تھا ۔
میں : آپ اتنے منجھے ہوئے لکھاری ہیں
پھر میری نظر سے آپکا تعارف نہیں گزرا؟ میں بھی کالج اور یونیورسٹی کے رسائل میں
مضامین لکھتا رہا ہوں۔
عبدالصمد: ہاں میں قلمی نام سے مشہور
تھا اور ایک طرح سے اچھا ہی ہے مجھے کوئی جانتا نہیں۔
یہ کہتے ہوئے جو درد اور کرب اس کے
چہرے پر تھا وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔
میں :عبدالصمد ایسا کیا ہوا جو آپ نے
لکھنا چھوڑ دیا؟
میں عبدالصمد کے جواب کا بے قراری سے
انتظار کرنے لگا۔
مجھے ایسا لگا جیسے لمبی مسافت طے کر
کے آنے والا مسافر جو خالی ہاتھ ہو جس کے ہاتھ میں کوئی سازوسامان نہیں جس کا سارا
مال و اسباب کسی لٹیرے نے لوٹ لیا ہو میرے سامنے بیٹھا ہے۔
عبدالصمد نے لمبی سانس لی جیسے اپنی
ساری ہمت جمع کرکے خود کو تیار کررہا ہو۔ مجھے عبدالصمد میں ایسے معصوم بچے کی
جھلک دیکھاںٔی دے رہی تھی جس سے اس کا پسندیدہ کھلونا،چیز لے لی گئی ہو اور وہ اس
کی جدائی برداشت نہیں کر پا رہا ہوں۔
عبدالصمد :کیونکہ میں اپنے لفظوں کو
بیچ نہیں سکتا تھا ۔
میں : ہر قلم کار کو اسکے لکھنے کا
معاوضہ ملتا ہے۔اگر بغیر معاوضے کے ہم لکھنے لگ گئے تو گھر کا چولہا اور باقی کی
ضروریات زندگی کہاں سے پوری کرینگے ہم۔
میں ایک دم بولا تھا
مجھے اب اس کی باتیں پریشان کرنے لگی
تھی۔
عبدالصمد : ہاں تو کس نے منع کیا ہے
کہ معاوضہ مت لو اور دو۔(وہ غصے سے بولنے لگا)
مگر کسی کو کٹ پتلی تو نہ بناؤ اس سے
اس کی طاقت تو مت چھینو
(عبدالصمد
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے) میرے الفاظ پہ میرا حق ہے یہ میرے بچوں کی طرح ہیں میں
نے ایک ایک کہانی ،مضمون دل کی گہرائیوں سے لکھا تھا۔مگر انھیں میرے الفاظ خنجر کی
دھار لگتے تھے۔جنھیں میں نے پیار سے سینچا تھا ۔وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے ان
کی نظر میں وہ مداری بن کر مجھے اپنی ڈگڈگی کے اشارے پہ نچانا چاہتے تھے۔
وہ چاہتے تھے کہ میں جھوٹ کو اتنی
خوبصورتی سے پیش کرو کہ سچ کا گماں ہو۔دھوکادہی،مکروفریب کو محبت خلوص کے رنگ برنگ
پیرہن پہنا کر قاری کو مہبوت کرو۔
مجھے بتاؤ کیا یہ درست ہے۔دھوکا نہیں
ہے۔قلم کی بے حرمتی نہیں ہے؟
اور اب میں کیا جواب دیتا میں تو خود
لاجواب ہوگیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد میں نے عبدالصمد سے
پوچھا اب آپ کیا کررہے ہیں۔
عبدالصمد : میں مداری بن گیا ہوں.
میں حیرت زدہ رہ گیا اتنا پڑھا لکھا
بندہ اور مداری بن گیا۔
عبدالصمد : ہاں دوسرے کے ہاتھ کی
ڈگڈگی پر تماشا بننے سے بہتر مجھے مداری بننا لگا۔
قلم کار بھی تو ڈگڈگی بجا کر قاری کو
محسور کرتا ہے نا اپنے لفظوں سے اور انتظار کرتا ہے۔پسندیدگی کا کہ قاری کیسا
ردعمل دے گا اسے۔
مجھے کرتب دکھانے پر فوراً ردعمل مل
جاتا ہے تماشائیوں کا ۔ اب بندر اور ریچھ میرے اشاروں پہ لوگوں کو خوش کرتے
ہیں۔کسی کو کوئی نقصان تھوڑی پہنچاتے ہیں۔سب وقتی خوش ہوجاتے ہیں۔
کہانیاں پڑھ کر بھی تو قاری خوش ہوتا
ہے نا۔قلم کار بھی تو لفظوں کو قلم کی ڈگڈگی پر نچاتے ہیں۔
پھر مداری اور قلم کار میں زیادہ فرق
کہاں رہا۔
عبدالصمد تو اپنی کہہ کر چلا گیا اور
میں سوچتا رہ گیا۔
"لکھاری
اور مداری"
کہیں میں بھی تو قلم کی ڈگڈگی سے قاری
کو کرتب تو نہیں دکھا رہا۔
مداری کی طرح بندر کو صاحب بنا کر تو
پیش نہیں کر رہا۔
ختم شد
امید ہے میری پہلی کاوش کہانی کی صورت
میں قابل برداشت ہوگی۔میرا علم بیکراں نہیں ہے۔اصلاح کے لیے اپنی رائے سے ضرور
نوازیگا ۔شکریہ
******************
از قلم:منیزہ احمد
Comments
Post a Comment