"بے نشاں"
حقارت سے بھرپور سخت لہجے میں وہ اقصیٰ سے مخاطب تھا..
"تم
سے شادی کرنا میری سب سے بڑی غلطی تھی..تم نے کبھی وفا ہی نہیں کی مجھ سے، اگر
کی ہوتی تو آج میری ماں کے دل میں جگہ بنائی ہوتی اور میں بھی سکون سے اپنے گھر ہوتا
یوں خوار نہ ہوتا آج"
ان باتوں پر اقصیٰ اپنی نم آنکھوں سے آنسو کے موتی صاف کرتے
رندھے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی۔..
"دانش
میں بھی اپنے ماں باپ کے بغیر نہیں رہ پاتی تھی اپنی بائیس سالہ زندگی میں ایک رات
بھی اپنی ماں کی آغوش سے الگ نہ ہوئی تھی,وہ ماں جس نے کبھی مجھے آونچی آواز میں مخاطب نہیں کیا... جس نے مجھے اتنی
محبت اور چاہت سے پروان چڑھایا جس کی آغوش میں آتے ہی میں خود کو محفوظ محسوس کرتی
جس کے آنچل میں خود کو کسی پرستان کی شہزادی سمجھتی جیسے خوشیوں کی وادیوں اور جیون
کی بہاروں پہ صرف میں قابض ہوں.. اور میرے بابا جنہوں نے اپنی ساری زندگی میری خوشیوں
پہ قربان کردی جنکی کل کائینات صرف اور صرف انکی اکلوتی بیٹی میں ہے.. انکا شفقت بھرا
ہاتھ جو میرے سر پر رحمت کے سائے کی مانند تھا اسے ترستی رہی ہوں... اپکی محبت اور
وفا میں میں نے خود کو اپنی خواہشات کو مار ڈالا اپنی زندگی کی ہر سانس کو اپکا غلام
کردیا...دانش خود سے پوچھیں کیا کبھی میں نے ضد کی کہ مجھے یہ چاہئے کبھی فرمائش کی
کہ مجھے ان تمام آسائیشوں سے لبریز کردو جو پہلے میری ذات کا حصہ تھیں.. کبھی یہ گلا
کیا کہ میری سالگرہ کیوں نہیں یاد رہتی آپکو کبھی یہ کہا کہ جو بوسیدہ لباس ذیب تن
ہے کبھی اپنے گھر کی نوکر کو پہننے نہیں دیا ایسا لباس میں کیوں پہنوں ؟اور آپکی امی
جان پہ کیاکبھی اس سچائی کو آشکار کیا کہ نامکمل میں نہیں انکا اپنا بیٹا ہے انکی نفرت
وحقارت پہ کیا کبھی اف بھی کی ہے میں نے؟؟؟
کیا کبھی شکایت کی کہ آپکی ماں بخار کی حالت میں بھی تپتے
جلستے وجود کے ساتھ بنا کسی آرام کے مسلسل کام کیوں کرواتی ہیں؟ کیا کبھی کہا کہ جسم
میں سقت نہ ہونے کہ باوجود ڈھیروں کام کی شدت سے خود کو سنبھال نہیں پاتی اپنے درد
کو چھپاتے ہوئے کس قرب سے گزرنا پڑتا ہے کیا کبھی آپکو اس تکلیف کی شدت کا احساس دلایا
ہے جو ماں باپ سے ملتے ہوئے جھوٹی ہنسی سے چھپانی پڑتی ہے...کیا کبھی کچھ شکوہ کیا
ہے میں نے؟؟؟؟
آپکو کیا لگتا ہے اگر میں اپنے گھر بتا دوں تو میری مدد
نہ کریں گے وہ لوگ؟؟
ایسا نہیں ہے میں اُس مان کے ٹوٹ جانے سے ڈرتی ہوں جو انکو
آپ پر ہے.. انکے چہرے پہ میری خوشحالی کے خیال سے جو سکون ہے اسکے ختم ہوجانے سے ڈرتی
ہوں...
اپکی والدہ نے مجھے بےاولادگی کے طعنے دے کر دھتکارا اور
آپ مجھ سے ہی بدظن ہیں...میری بھی خواہش تھی کہ کسی نیک شخص کی بیوی بنوں کوئی مجھے
بھی اس مان سے نوازے جس کی عورت حقدار ہوتی ہے.. میں نے بھی اولاد کے سپنے دیکھے تھے
اس احساس کو محسوس کرنے کی خواہش مجھے بھی ہے جس سے میں خود میں معتبر ہوجاتی مگر آپکی
عزت اور آپ سے وفا کے جذبے نے مجھے دل میں اس حسرت کو دبانے پہ اکسا دیا.. آپکی اس
کمی پر پردہ ڈالنے کیلئے خود کو نامکمل ٹھہرایا دنیا میں...ابھی بھی میں وفا شعار بیوی
نہیں؟
جب وعدوں کے ساتھ مجھے اپنانے آئے تھے آپ جب میرے بابا نے
مجھے رخصت کیا تھا اسوقت مجھے میرے بابا کہ الفاظوں نے مجبور کردیا آپسے وفا کرنے پر..
"بیٹے
ہم نے تمہیں جتنا بھی پیار دیا ہے اگر اسے واپس لوٹانا چاہتی ہو تو ہرحال میں خوش رہنا"
یہ الفاظ کہتے ہوئے انکے چہرے پر جو مان اور خوشی تھی اس مان نے مجھے روک لیا ہے باندھ
دیا ہے...یہ کہتے اقصیٰ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی... دانش کا وجود کسی طوفان کی ضد میں
تھا... دانش کی گردن پشیمانی سے جھکی ہوئی تھی اقصیٰ کو سینے سے لگاتے ہوئے دونوں بے
تحاشا رو دیے,لیکن یہ آنسو پرانی تاریکی دھول کو صاف کر کہ فضا کو نکھارنے کے لیے تھے
ایک نئی زندگی جنم لینے والی تھی.....
وہ نشاں جو کبھی بے نشاں تھے آج آشنائی کی حقیقت کو پہنچ
گئے تھے...
از قلم.. عنشاء حیا.
Superb
ReplyDeleteNyc
ReplyDelete