تعلیم
کی اہمیت اور ہماری غفلت
پہلا منظر:-
یہ منظر دربار محمد صلی اللہ
علیہ وعلی وسلم کا تھا۔ دنیا عدل کے سب سے بڑے منصف محمد (ص) عربی تخت انصاف پر تشریف
فرما تھے۔ جنگ میں قید ہونے والوں کی ایک لائن لگی ہوئی تھی اور یہ سب دھڑکتے دلوں
کے ساتھ آنکھوں میں آس لیے منصف کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اب کاتب تقدیر ان کے نصیب میں
کیا لکھتا ہے۔ منصف نے قیدیوں سے کہا کہ جزیہ دے کر وہ لوگ رہا ہو سکتے ہیں مگر ان
میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کے پاس جزیہ میں دینے کے لئے کچھ نہیں تھا تو ان
کے لیے جزیہ کے طور پر یہ طے کیا گیا کہ ان میں سے ہر ایک بیس مسلمانوں کو پڑھا دے۔
یہ تھی تعلیم کی اہمیت۔ مسلمانوں
کے لیے تعلیم کی اہمیت کو بہت ساری احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔
ارشاد ہوا:-
"ماں
کی گود سے قبر کی گور تک تعلیم حاصل کرو"
"علم
حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی جانا پڑے"
مسلمانوں کے مذہب اسلام کی
ابتدا ہیں "اقراء" یعنی "پڑھ" سے ہوئی۔
دوسرا منظر:-
یہ منظر اصحاب صفہ کا ہے۔
صفہ اسلام کی باقاعدہ طور پر بنائی گئی سب سے پہلی تعلیمی درسگاہ تھی۔ اس میں تعلیم
حاصل کرنے والے صحابہ اکرام کے شوق کا یہ علم تھا کہ کئی کئی دن بھوکے رہتے مگر درسگاہ
سے ایک قدم باہر نہیں نکالتے تھے کہ کہیں حضور
اکرم (ص) ان کے پیچھے کوئی حدیث بیان نہ کر دیں اور وہ اس سے محروم رہ جائیں۔
تیسرا منظر:-
تیسرا منظر خلیفۃ المسلمین
ہارون رشید کے دور کا ہے۔ خلیفہ کے دو بیٹے مسجد میں استاد کے جوتے اٹھانے پر جھگڑ
رہے تھے اور ان میں سے ہر ایک یہ سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا اور پھر فیصلہ دونوں کے
ایک ایک جوتا اٹھانے پر ہوا۔ یہ تعلیم کی وجہ سے استاد کی عزت تھی کہ خلیفہ وقت کے
بیٹے بھی اس کے جوتے اٹھانا باعث فخر سمجھتے تھے۔
اپنے دین اسلام کی ابتدا سے
ہی ہمیں علم اور تحقیق کا حکم دیا گیا اور قرآن پاک میں ارشاد ہوا کہ علم والے کے لیے
کائنات میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ مسلمانوں نے اللہ تعالی کے اس حکم کو جو سینے سے لگایا
تو ان پر ترقی کے دروازے کھل گئے۔ مسلم دنیا نے بہت سے نامور اہل علم پیدا کیے جن میں
علم طب میں زکریا الرازی، ابوالحسن طبری، ابن الہیثم اور سرجن ابوالقاسم زہراوی اور
بہت سے دوسرے سائنسدان جن میں جابر بن حیان، علاءالدین، عبد الرحمن الصوفی، اور ابن
سینا جیسے نام نمایاں ہیں۔ الغرض تاریخ ایسے بہت سے بڑے بڑے مسلم سائنسدانوں، ماہر
طبعیات، ماہر طب اور ماہر کیمیا کے ناموں سے بھری پڑی ہے کہ جنہوں نے دنیا کے اندر
اپنے علم اور تجربات سے ایک انقلاب برپا کیا۔ دنیا کو نئی نئی جہتیں دی اور تہذیب و
تمدن کہ ایسے راستے دیے کہ جن پر چل کر انسان واقعی انسانیت میں آتا گیا۔ یہ وہ وقت
تھا کہ جب مسلمانوں نے تعلیم اور تحقیق کو ہی اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا ہوا تھا۔
وہ ہروقت تحقیق پر رہتے اور کائنات کے راز
دنیا پر افشاں کرتے۔
مگر سوال یہ ہے کہ جب ہم لوگ
پہلے اتنی ترقی پر تھے تو اب پستی کی انتہاء پر کیوں پہنچے ہوئے ہیں۔ ہمارا ماضی اتنا
شاندار اور حال اتنا برا کیوں۔ ماضی اتنا چمکدار تو حال اتنا تاریک کیسے ہوا۔ اتنا
تابناک ماضی رکھنے پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج ہم دنیا پر حکمرانی کر رہے ہوتے۔
مگر سوال یہ اٹھتاہے کہ آج ہو غلامی کے پست گڑھوں میں کیسے گرے ہوئے ہیں۔
اس سوال کا جواب بہت سادہ
مگر تلخ ہے۔ یہ ہمارے اپنے برے عمال اور جان بوجھ کر کی گئی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔
ہمارا ماضی اس لیے شاندار
تھا کہ اس میں ہمارا وطیرہ علم اور اہل علم کی قدر تھی مگر حال اس لیے تاریک ہے کہ
اب اس کے برعکس ہوا ہے۔ مگر یہ غلطیاں ہم نے کہاں سے شروع کی اس کا جائزہ لینے کے لئے
ہمیں تھوڑا سا ماضی میں سفر کرنا ہوگا۔
انسان کی یہ فطرت رہی ہے کہ
جب اس کو اختیارات حاصل ہوتے ہیں تو یہ اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اور یہی سب مسلم
حکمرانوں نے کیا جو اپنے علم اور عمل کے باعث مسلمانوں کو اقتدار ملا تو ہر خاص و عام
اپنی عیاشیوں عیش و نشاط میں گم ہوگئے۔ علم کے پیاسے رقص و سرور کے پیاسوں میں بدل
گئے ہیں اور وہ ہاتھ جن میں ایک طرف تلوار دوسری طرف کامیابی کا ضامن قرآن پاک ہوتا
تھا ان ہاتھوں میں شراب و شباب کے جام آگئے۔ خلفاء اور ان کے امراء حسینائوں کی زلفوں
کے اسیر ہوئے تو مردوں کا زیور تلواریں اور تیر پگھل کر حسینائوں کے زیورات میں تبدیل
ہوگئے۔ خزانوں کے منہ حسینائوں، مغنیائوں، بھانڈوں اور رمزیہ نگاروں کے لیے کھل گئے
تو وہی پر ستم ظریفی یہ ہوئی اہل علم کو نہایت بری طرح دھتکارا جانے لگا۔ درباروں کے
دروازے اہل علم کے لئے بند ہو گے اور جب شعراء حضرات کی بادشاہوں تک رسائی ہوئی تو
رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ شعراء نے صرف اپنی خیالی پروازوں اور حقیقت کے برعکس نثر
نگاری سے بادشاہوں کو خیالی اور خالی بلندی کی اس سطح تک پہنچا دیا کہ وہ اپنی اصلیت
اور حقیقت بھول گئے۔
اس کٹھن وقت میں جب ضرورت
بلندی کی طرف جانے کی تھی تو مسلمانوں کا پستی کی طرف سفر شروع ہو گیا۔ جب ضرورت درسگاہوں
کی تھی تو اس کے برعکس بازار حسن سجائے گے۔ جب ضرورت لائبریریوں کی تھی تب تاج محل
بنائے گئے۔ جب ضرورت اہل علم کی تھی تب عزت بھانڈوں کو دی گئ۔ جب ضرورت ہاتھ میں کتاب
کی تھی تب ہاتھ میں جام آگیا اور جب ضرورت عمل کی تھی تو کام تخیلات سے چلایا گیا۔
ایک وقت وہ تھا کہ جب حصول
علم کے شوق نے بغداد جیسا شہر آباد کروایا تھا جہاں پر اس وقت کی سب سے بڑی لائبریری
قائم ہوئی۔ یہ وہ لائبریری تھی کہ جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور اس لائبریری
کو تباہ کرکے اس کی کتابیں دریا میں پھینکی تو دریا کا پانی لفظوں کی سیاہی سے ایک
دفعہ مکمل سیاہ ہوگیا تھا۔
اس وقت مسلمانوں کو جب کہیں
کسی نئی کتاب یا نئے علم کا پتہ چلتا تو مسلم اس کو حاصل کرنے کے لئے سفر کی ہر صعوبت
جھیلتے ہوئے پہنچ جاتے اور اس کی جو بھی قیمت ہوتی اس پر حاصل کیا جاتا۔
اس وقت موجودہ اسلامی ریاست
ملک پاکستان میں تعلیم کا جو حال ہے وہ سامنے ہے۔ دنیا کی دس بڑی یونیورسٹیوں میں ہماری
ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں۔ ہمارے گریجویٹ کو کہی بات کرنی پڑجائے تو اس میں اعتماد
کا نہایت فقدان نظر آتا ہے کیونکہ ہم جو پڑھ رہے ہیں وہ صرف پڑھ ہی رہے ہیں اس پر کوئی
عمل نہیں ہے۔ ہمارے علم اور عمل میں بہت تضاد نظر آتا ہے۔ ہم اس وقت اس لئے بھی سب
سے پیچھے ہیں کہ ہماری تعلیم کا مقصد صرف نوکری کے حصول تک رہ گیا ہے اور علم سے کچھ
سیکھنے کا مقصد ہم نے ختم کردیا ہے۔
اگر ہم ترقی یافتہ قوموں سے
مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے فرسودہ تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا۔ ضرورت ایک
مضبوط تعلیمی نظام کی بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی سوچ کو بدلنے کی بھی۔
ایک نیا اور اسلامی اصولوں
کے مطابق تعلیمی ڈھانچہ تیار کیا جائے اور سب سے پہلے اساتذہ کی اس ڈھانچے کے مطابق
ازسر نو تربیت کی جائے اور نئی نسل کے ذہن میں شروع سے ہی اسلام اور مسلمانوں کی عظمت
کو راسخ کیا جائے۔ فنی تعلیم کا حصول ہر فرد پر لازم کیا جائے۔ اگر ہم یہ سب قدم اٹھا
لیں تو ہماری آنے والی نئی نسل انشاءاللہ دنیا کی رہنمائی کرے گی اور پاکستان کا شمار
بھی دنیا کے اعلی ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔ انشاءاللہ۔
از قلم:- عام آدمی ( محمد
عمران اشرف(
imranashraf444@gmail.com
whatsapp.00966581576372
Good topic. Keep it up.
ReplyDelete