خواب
اور ہم
سیانے صحیح تو کہتے ہیں کہ خواب کسی کی میراث نہیں ہوتے
یہ تو کوئی
بھی دیکھ سکتا ہے جاگتی آنکھوں سے بھی اور بند آنکھوں سے
بھی۔اصل بات تو ان دیکھے ہوئے خوابوں کی تعبیر پانا ہے ۔اور اگر تعبیر پا لی تو اللہ
ذوالجلال کا شکر ادا کرنا کہ اسی کے ساتھ کی وجہ سے تو خواب آنکھوں میں سجے اور پھر
اسی پاک ذات کے ساتھ کی وجہ سے اس خواب کو حقیقت کا روپ دھارنے کی خواہش اور امید جاگی۔
خوابوں کے پورا ہونے پر سجدہ شکر ادا کرنا اللہ عزوجل کی
رضا میں راضی ہونا ہے۔اس عمل سے تکبر ہمارے پاس نہیں آتا ہم خود کو خاص نہیں سمجھتے
اور جو کہ ہم ہیں بھی نہیں۔ہم تو اللہ کی بہت ہی ادنی سی مخلوق ہیں ہمیں تو یہ سب نعمتیں
اللہ تعالیٰ کے جودو کرم سے ملی ہوئی ہیں۔ہمارے اعمال دیکھ کر تو کوئی ہمیں اپنے پاس
سے ایک دھیلا بھی نہیں دے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ ایسی ہے جو اپنے کسی بھی
بندے کو کسی بھی حال میں اکیلا نہیں چھوڑتی۔ہم کامیابی کی سیڑھی چڑھنے لگتے ہیں ایک
جم غفیر ہمارے اردگرد نظر آنے لگتا ہے۔جہاں ہمارا پاؤں پھسلا ہم گرنے لگے کوئی ہمیں
بچانے کے موجود نہیں ہوگا سوائے اللہ کی ذات کے۔اسی لیے اگر آپ کو آپ کے خواب کی تعبیر
مل گئی تو شکر ادا کریں اور اگر نہیں ملی تو دل چھوٹا نہ کریں اس کے نہ ملنے میں ہی
آپ کے لیے بہتری ہوگی ۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے زیادہ بہتر آپ کے انتظار میں کہیں اور
موجود ہو۔بڑھتے رہیں آگے جھیل میں موجود ساکن پانی پہ بھی تو کائی جم جاتی ہے جبکہ
چشمہ کا رواں پانی اپنا رستہ اللہ کے حکم سے ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔اور اس رواں پانی سے
بہت سے لوگ سیراب ہوتے ہیں جبکہ جھیل کے پانی سے کچھ ہی لوگ سیراب ہوتے ہیں۔ناکام ہونا
زندگی کے جامد ہونے کا نام نہیں ہے۔بلکہ آگے بڑھنے کی کوشش کرنے کا نام ،امید ویاس
ہے۔
ایسے ہی تجربات سے زندگی کی کہانی آگے بڑھتی ہے لیکن کیا
ضروری ہے کہ ہم خود ہی تجربات کی بھٹی میں جل کر کندن بننے کو ہی اصل تجربہ مانیں ہم
دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ نے کتنی پیاری
صلاحیت ہمیں دی ہے سوچنے کی سمجھنے کی مگر ہم اس کا استعمال ہی کم کرتے ہیں۔مثبت تو
شاید ہی استعمال کیا جاتا ہے ہاں منفی اثرات مرتب کرنے والی سوچ تو پہلے ہی تھرو پر
کیچ کرکے خود کو دنیا کا عظیم ترین کارنامہ انجام دینے والے خود کو سمجھتے ہیں۔جہاں
عقل و شعور استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دوسرے کے تجربات اور مشاہدات سے زیادہ
سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں اور خود کیا دوسروں کو بھی اس کار خیر سے نوازے میں کوئی
قباحت محسوس نہیں ہوتی۔
اور جہاں بات ہو زندگی سنوارنے کے لیے کسی کے تجربات سے
سیکھنے کی وہی پہ انا جاگ جاتی ہے اور خود کو بلند کرنے کی چاہ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ
آنکھوں دیکھی مکھی بھی نگلنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
اور بعد میں پچھتاوا کہ کاش میں پہلے ہی سمجھ جاتا،سیکھ
جاتا۔
اس کاش کہ لفظ کو اپنی زندگی کی ڈکشنری میں سے نکال باہر
پھینکیں پھر دیکھیں زندگی کتنی خوبصورت اور دلکش ہوجاتی ہے۔
زندگی تو زندگی ابدی زندگی بھی پر سکون ہو جائے گی۔سیکھنے
کا عمل گود سے لے کر لحد تک جاری رہتا ہے سیانے کہتے ہیں۔
تو بس خواب کی تعبیر پانے کے لیے دوسروں کے ساتھ اور ان
کے تجربات کی روشنی میں اپنی منزل کو اور آسان بنائیں ۔یہ ضروری نہیں کہ آپ کو سکھانے
والا مکمل طور پر پرفیکٹ ہو۔اس کی مجموعی دلچسپی اور خامی کو نظر میں رکھ کر ہم خود
کے لیے بہتر فیصلہ بہتر مواقع میسر کرسکتے ہیں۔
از قلم منیزہ احمد
Comments
Post a Comment