Dilshad Afsana by Sehar Chaudhary



دل شاد
دلشاد تم آج ہمیں پورے 6 سال
 بعد ملی ہو وہ بھی اس طرح اچانکہ مارکیٹ میں نظر آگئ ۔۔۔ زوبی کی نظر نہ پڑی ہوتی تو شاید ہی کبھی ہم دونوں تم سے۔ مل پاتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زویا ایک سانس میں ہی دلشاد سے سب شکایتں کر لینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔ پھر اچانکہ زویا کی نظر دلشاد کے ساتھ ایک بچی پر پڑی جس نے دلشاد کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔۔۔۔۔۔ زویا کو جیسے ہوش سا آیا اور وہ جھٹ سے بولی۔۔۔۔۔۔ دلشاد۔۔۔۔۔ یہ تمہاری بیٹی ہے نہ؟ ہوبہو تم جیسی ہے۔۔۔۔ دیکھو زوبی کتنی پیاری ہے ہماری بھتیجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلشاد نے اپنا سکوت توڑتے ہوئے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا اور بولا فاطمہ بیٹا دونوں خالہ کو سلام کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فاطمہ مسکراتے ہوئے چہرے  سے۔۔۔۔۔ اسلام وعلیکم آنٹی ۔۔۔۔آپ کیسی ہیں ۔۔۔۔۔ ماما کی بیسٹ فرینڈز ہیں نہ آپ دونوں ۔۔۔۔۔  زوبی ، جی جی بیٹا ہم اور آپ کی ماما ایک ساتھ یونیورسٹی  میں پڑھتے تھے ۔۔۔۔۔۔ آپ کی ماما ہمارے لیے بہت خاص ہیں ۔۔۔۔ اور اب سے آپ بھی۔۔۔۔ زویا نے جھک کر فاطمہ کو ڈھر سارا پیار کیا۔۔۔۔۔۔ کتنا پیارا نام ہے ہماری فاطمہ کا تو۔۔۔۔ زویا نے فاطمہ کے ماتھے پر بوسا دیا۔۔۔۔۔۔ دلشاد چپ سی کھڑی اپنی بیٹی پر پہلی مرتبہ کسی کو محبت لٹاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ آج سے پہلے فاطمہ کو محبت کرنے والی صرف ایک اُس کی ماں تھی۔۔۔۔ بد نصیب میری پھول سی بیٹی کا میرے علاوہ اور تھا ہی کون۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے تمام رشتے صرف ایک میری ذات ہی تھے۔۔۔۔۔۔ ان سوچوں میں گم دلشاد ساکت  کھڑی اپنے آس پاس سے بیگانی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں زوبی کے مخاطب کرنے پر ایک دم سے چونک گئ۔۔۔۔۔ دلشاد آخر ایسے بھی کوئی کرتا ہے شادی کے بعد سے تم بلکل ہی غائب ہوگئی۔۔۔۔۔ ربطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔۔۔ ہم سب دوستوں نے بہت کوشش کی کے کہیں سے تمہاری کوئی خیر خبر ملے لیکن کچھ معلوم نہیں ہوا۔۔۔۔۔ اور یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ زویا نے دلشاد کے مرجھائے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ارے زوبی یہاں کھڑے کھڑے  سب سوال کرو گی اس سے ۔۔۔۔اب ہم اسے کہیں جانے نہیں دے گے چلو کہیں بیٹھ کے بات کرتے ہیں ۔۔۔یہاں پاس ہی کافی شاپ ہے چلو وہاں سے کافی پیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور پھر دلشاد کی خوب خبر لیتے ہیں۔۔۔۔۔ کیوں فاطمہ لینی چاہیے نہ آپ کی ماما کی خبر۔۔۔۔۔۔ زویا جھک کر فاطمہ کے گالوں کو تھپ تھپھا رہی تھی۔۔
 دلشاد نے فاطمہ کو پاس پارک میں کھیلنے کا کہا۔۔۔۔۔ چونکہ اُس کی سہلیاں جو سوالات اُٹھانے والی تھی دلشاد کے پاس جواباً ایک دردناک کہانی تھی جو وہ صرف ناول افسانوں میں پڑھا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔ اب ایسی ہی کہانی اُس کی اپنی زندگی پر بن چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاطمہ پارک میں بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔ زویا نے پریشان نگاہوں سے دلشاد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔۔ جیسے وہ اپنے سارے اندازے جھٹلا  کے دلشاد سے یہ سننے کے لیے بےتاب ہو کہ ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔لیکن سب ٹھیک کہاں تھا۔۔۔۔ سب تو ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔ دلشاد کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے وہ اپنی دردناک داستاں خود سنائے۔۔۔۔۔۔ لیکن اُس کے سوا اور تھا ہی کون جو اُس کی بے بسی ۔۔۔ بربادی کی داستاں سناتا۔۔۔۔ آخر دلشاد نے حوصلہ باندھا اور اپنی چھ سالہ تباہی وبربادی کا قصہ اپنی زبانی سنانا شروع کیا۔۔۔۔ یہ قسمت بھی کتنی ظالم ہے نہ۔۔۔۔۔سب کچھ ہمارا لوٹ لینے کے بعد بھی ہمیں ہمارے حال پہ نہیں چھوڑتی ۔۔۔۔ لوگوں کی صورت میں بار بار ہمارے زخموں کو کریدنے آجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ لوگ عیادت کے لیے آتے ہیں۔۔۔۔۔ ہمارے منہ سے ہماری زندگی کے دردناک پہلو سے پردہ اُٹھواتے ہیں۔۔۔۔۔۔ درد کم نہیں اور بھرنے لگ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
 زوبی ، دلشاد نے لب ہلائے ۔۔۔ زویا،  دلشاد نے لمبا سانس لیا۔۔۔۔ دونوں کو مخاطب کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔ یار میری ساری فلاسفی، سارے قانون، سب ڈگریاں بےکار گئی۔۔۔۔ میری قابلیت  سب مل کر میرا گھر ٹوٹنے سے نہ بچا سکے۔۔۔۔۔ بلکہ  میری وسعت نظری، میری علم وفراست یہ ہی آج میری اس حالت کا ذمہ دار بن گئے۔۔۔۔ فاطمہ نہ ہوتی تو شاید آج میں زندہ نہ ہوتی۔۔۔۔۔ لیکن رب کے امتحان بہت منصوبہ سازی پر مبنی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جو جینا چاہتے ہیں اُنہیں پاس بلا لیتا ہے اور جو مرنا چاہتے ہیں اُنہیں کسی نہ کسی بہانے زندہ رکھتا ہے۔۔۔۔ وہ بڑا کار ساز ہے۔۔۔۔۔ زوبی اور زویا کا دل ڈوب  رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ دونوں دلشاد کی باتیں سمجھنے پر بھی نہیں سمجھنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ جو خطرے کی گھنٹی دونوں کے دماغ میں بج رہی تھی۔۔۔۔۔۔ دلشاد کی درد بھری آواز نے اُس گھنٹی کو واقعی میں دونوں کے سروں میں دے مارا۔۔۔۔۔۔ تم کہنا کیا چاہتی ہو دلشاد ۔۔۔۔ تمہارا گھر ۔۔۔۔۔ تم تو ہم سب میں زیادہ سمجھدار تھی۔۔۔ ٹھہری ہوئی۔۔۔۔ ہر لحاظ سے سوجھ بوجھ میں بھی سب سے آگے۔ یونیورسٹی میں تمہارے چرچے تھے۔۔۔ سب سے قابل۔۔ پوزیشن  ہولڈرتھی تم تو۔۔۔۔ سب پروفیسرز تمہاری تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے۔۔۔۔ زویا ایسے جیسے دلشاد کو اب یاد دلا رہی ہو کہ وہ کیا تھی اور آج جو اُن کے سامنے بیٹھی ہے وہ دلشاد نہیں کوئی بوسیدہ سی آتما ہو۔۔۔۔۔
زویا وہ کم ظرف نکلا۔۔۔۔ اُسے میری وسعتِ نظری،میری ڈگریوں میری حاصل کردہ تمام ٹرافیز سے جلن ہونے لگی۔۔۔۔۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی اُس کی کم ظرفی ہمارے رشتے کے بیچ آگئی۔۔۔اُس نے اپنی انا کی بھینٹ میرا تمام اثاثہ چڑھاڈالا۔۔میری ڈگریاں، ٹرافیز، میری قیمتیں کتابیں سب جلا دیں۔ سب کچھ جلا دیا میری روح بھی جل گئی اُسی دن!!!!! میں پھر بھی خاموش ایک کونے میں پڑی رہی۔۔۔ مجھے یہ تھا میرا گھر بچ جائے۔۔۔۔۔ یہاں سے نکلی تو کہاں جاوْں گی!! باپ تو پہلے گزر گیا۔۔ ماں کو بیماریوں نے جنجھوڑ رکھا ہے۔۔۔ بھائی اپنی زندگی میں مگن ہے۔۔۔۔ شاید عورت کو اسی لیے ستیا جاتا ہے کہ اُس کا بیاہ جانے کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا!!!  کتنی عجب بات ہے نہ۔۔۔۔۔ بیٹے کی شادی کے لیے قابل، پڑھی لکھی لڑکی چاہے ہوتی ہے۔۔۔۔ اور غریب ماں باپ کی بدقسمتی کے وہ اپنی نازوں سے پلی بیٹی کو پڑھا لکھا کے بے قدرے لوگوں کے ہتھے چڑھا دیتے ہیں ۔۔۔ یہ سوچ کے ، کہ وہاں سکھی ریے گی۔۔۔ ضروریات ہماری بچی کی آرام سے پوری ہو جاہیں گی انہیں کیا پتہ کہ وہ تو بس جنم دے سکتے ہیں بیٹی کو کرم نہیں۔۔۔۔۔۔ تم لوگوں کو معلوم ہے نہ زویا۔۔۔۔ میں کتنی زندہ دل سب کو مشورے دینے والی۔۔۔۔ سب کے مسئلے حل کرتی تھی۔۔۔۔ سب میری فراست سے کتنے متاثر تھے۔۔۔۔۔ کتنی سوشل تھی میں ۔۔ آگے بڑھ  کے سب کے کام کرتی تھی ۔۔۔ بہت ایکٹو تھی نہ میں زوبی!!!ایسے جیسے وہ اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ سے دریافت کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ کیسے نہ کرتی آج اتنے لمبے عرصے کے بعد پہلی بار تو دلشاد کو اپنا ذکر کرنے کا موقع ملا تھا۔۔۔۔   6 سال بعد آج پہلی بار کسی کی باتوں میں اُس کا ذکر آیا تھا۔۔۔۔۔ ورنہ تو اُسے سنتا ہی کون تھا۔۔۔۔۔ وہ ایک ایسا ہیرا تھی جس کی پہچان ایک عام شخص نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔ اور اُس کا خاوند تو عام بھی نہیں تھا۔۔ انسان کے بھیس میں شیطان تھا۔۔۔۔ معلوم ہے تم دونوں کو میں سب خاموش سہتی رہی ۔۔۔ فہد کو میری کوئی بات پسند نہ آتی میری ہر بات پہ مجھے طعنے ملتے کہ۔میرا پڑھ لکھ کے دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ میں بہت سادہ اندازمیں بات کرتی مگر نہ اُس کی ماں کو نہ اُسے میری کوئی بات اچھی لگتی۔۔۔۔وہ چھوٹی سوچ کے مالک لوگ تھے۔۔۔۔ مجھے ایک کونے میں بھی جینے نہ دیتے۔۔۔۔۔
امّاں کو کیا بتاتی کس کے در پہ جاتی امّاں تو پہلے ہی اپنےگھر میں مہمانوں کی طرح رہ رہی تھی۔۔۔۔ اس دوران فاطمہ میری زندگی میں آگئی۔۔۔۔۔  اب ماں بیٹے نے مجھے فاطمہ سمیت گھر سے نکال دیا ۔۔۔۔ بیٹا پیدا کرتی تو مجھے گھر کے کسی کونے میں رہنے کا حق مل جاتا۔۔۔۔ مگر اللہ نے مجھے رحمت سے نوازا جو اُس وقت صرف مجھے سمجھ آرہا تھا اور کسی کو نہیں ۔۔۔۔ میں ایک جاہل گنوار عورت بن کے اُس گھر میں وقت گزارتی رہی۔۔۔۔۔ جس صدمے سے اپنی ماں کو بچانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔ نہ چاہتے بھی بچانہ پائی۔۔۔ ماں کے در کے سوا کہاں جاتی۔۔۔۔ بھائی نے غیرت کے نام پرمجھے خاموشی طاری کرنے کا حکم سنا دیا۔۔۔۔ بھابی نے مجرم ٹھہرا دیا۔۔۔ امّاں صدمہ برداشت نہ کر سکی۔۔۔۔۔اور میرا آخری سہارا بھی جاتا رہا ۔۔۔۔ امّاں کے گزر جانے کے بعد بھابی بھائی کے کان بھرنے میں کامیاب ہوگیں اور یوں ہم ماں بیٹی کا آخری ٹھکانا بھی جاتا ریا۔۔۔۔۔۔ فاطمہ ایک سال کی تھی جب میں اسے لے کے دارلامان آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اب  فاطمہ پانچ سال کی ہوگئی ہے۔۔۔ میں ایک فیکڑی میں سپروائزر کا کام کرتی ہوں اور فاطمہ  کی ضروریات پوری کرتی ہوں اسےسکول داخل کروایا ہے ۔۔۔۔ ماشااللہ  میری فاطمہ  میری طرح بہت ذہین ہے۔۔۔۔ دلشاد کہتے کہتے رک گئی۔۔۔۔۔ اُس کی اپنی ذہانت جو اُس کے کسی کام نہ آسکی!!
 بس ڈرتی ہوں اُس وقت سے جب فاطمہ بڑی ہوجائے گی ۔۔۔۔۔۔کہیں وہ بھی مجھے مجرم نہ سمجھے ۔۔۔اُسے یہ نہ لگے کہ اُس کی ماں نے اُسے اس کے باپ سے دور رکھا ۔۔۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو میں اپنی فاطمہ کو وہ خوشیاں نہ دے سکوں جس کی وہ حق دار ہے۔۔۔۔ زوبی میں اپنے آپ کو اُس وقت کے لیے تیار کر رہی ہوں۔۔۔۔ جب فاطمہ کو سنبھالنا ہوگا۔۔۔۔۔ اُسے ان سب تلخیوں سے نکالنا ہوگا۔۔۔۔ ان سب کے لیے مجھے خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ جانتی ہو تم دونوں میں اپنی پہچان بھی بدل ڈالی ہے۔۔۔ آج تم دونوں مجھے دلشاد کہہ کر پکار رہی تھی تو بہت عجیب لگا سننے میں۔۔۔ دلشاد تو اب ختم ہوگئی ۔ میرے نام کا اب میری شخصیت پر اثر نہیں رہا ۔۔۔ اب میں "اُمِ فاطمہ "ہوں ۔۔۔۔۔۔دلشاد نہیں!!!!
 زویا اور زوبی کو جسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہ آریا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کے جسم میں جیسے سویئاں چبھ رہی ہوں۔۔۔ دلشاد !!کہتے ہوئے زویا کی آنکھیں بھیگ گئی۔۔۔زوبی بھی خود پر قابو نہ رکھ سکی۔۔۔۔ جب کے دوسری طرف دلشاد جس کے آنسو سوکھ چکے تھے بہت بہادری سے اپنی دردناک داستاں سنانے میں کامیاب ہوگئی۔۔۔۔۔۔
 اور دل ہی دل میں شکرگزار ہورہی تھی کہ یا اللہ  تیرا شکر ہےمیں کوئی کام تو دلیری سے کر پائی!!!!!!!  
جب کے دلشاد تو بہادری کا دوسرا نام تھی!!!!!
جو اب اُمِ فاطمہ تھی"
(تحریر: سحر چوہدری)

Comments